بلومبرگ کے مطابق مبینہ جوہری پلانٹ کی تیاری جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے روک تھام کے لیے کام کرنے والے ماہرین کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ سعودی عرب نے اب تک دیگر جوہری طاقتوں کی طرح کسی عالمی قوانین کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے جس سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ سویلین جوہری پروگرام ہتھیار بنانے کے لیے استعمال نہیں ہورہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ویانا میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ نگرانی کے انتظامات ہونے سے پہلے جوہری ایندھن فراہم کنندگان یونٹ کو سپلائی نہیں دے سکتے۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے ) کے سابق ڈائریکٹر رابرٹ کیلی نے کہا کہ اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ ان تصاویر میں ملک کے پہلے جوہری پلانٹ کو دکھایا گیا ہے۔
سعودی عرب کے وزیر توانائی نے ایک بیان میں کہا کہ اس پلانٹ کا مقصد بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق پرامن سائنسی، تحقیق، تعلیمی اور تربیتی سرگرمیوں کا آغاز کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پلانٹ شفافیت کے ساتھ قائم کیا گیا ہے کہ اور سعودی عرب نے جوہری عدم پھیلاؤ کے تمام بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔
وزیر توانائی نے مزید کہا کہ اس پلانٹ کا دورہ کیا جاسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے جوہری پلانٹ سے متعلق مقاصد بیان کیے ہیں لیکن اس حوالے سے معلومات انتہائی کم ہیں اس پلانٹ میں کس قسم کی مانیٹرنگ کا ارادہ ہے۔
جوہری ہتھیاروں کی روک تھام سے متعلق کام کرنے والے ماہرین سعودی عرب کے جوہری کام کا جائزہ لے رہے ہیں۔
سعودی ولی عہد کے بیان نے جوہری ہتھیاروں کی نگرانی کرنے والے اداروں میں تشویش پیدا کردی تھی کہ ان کے پاس سعودی عرب کے مقابلے میں ایران میں قائم جوہری تنصیبات تک رسائی کی صلاحیت زیادہ ہے۔
جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق سابق سفارتکار اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی محقق شارون اسکواسونی نے کہا کہ ’ واشنگٹن میں اس وقت یہ بحث ہے کہ سعودی عرب کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے چاہیئیں یا نہیں۔
امریکی کانگریس کی جانب سے سعودی عرب کو حساس ٹیکنالوجی کی منتقلی پر تحقیقات کے آغاز سے اس جوہری پر توجہ میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی حکومت کے ادارہ احتساب نے رواں ہفتے تحقیقات میں شمولیت اختیار کی تھی اور کہا تھا کہ وفاقی ادارے کو سعودی عرب میں کام کی خواہشمند امریکی کمپنیوں کے کام کا جائزہ لینے کا کہا گیا ہے۔
ارجنٹائن کی سرکاری کمپنی آئی این وی اے پی ایس ای نے سعودی عرب کو یہ یونٹ فروخت کیا تھا جسے رواں برس کے آخر میں شروع کیے جانے کا منصوبہ ہے۔
رابرٹ کیلی کے مطابق یہ کنٹینر 10میٹر اونچا ہے جس کا قطر 2.7 میٹر ہے جو کہ دیگر ریسرچ ری ایکٹر کی خصوصیات جیسا ہے۔
انہوں نے اس حوالے سے زامل انڈسٹریل انویسٹمنٹ کارپوریشن کی جانب سے شائع کی گئی تصویر بھی استعمال کیں۔
سعودی عرب نے اس وقت آئی اے ای اے کے اسمال کوانٹیٹیز پروٹوکول پر دستخط کیے ہیں، یہ قوانین اس وقت ختم ہوجائیں گے جب اسے جوہری ایندھن کی ضرورت ہوگی۔
ریاض نے اب تک ایسے قوانین اور مراحل پر عملدرآمد نہیں کیا جس سے جوہری انسپکٹرز کو ان تنصیبات تک رسائی کی اجازت ملے گی۔
خیال رہے کہ چند روز قبل برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز نے ایک رپورٹ میں امریکی سیکریٹری برائے توانائی ریک پیری کی جانب سے جوہری کمپنیوں کو سعودی عرب کو جوہری ٹیکنالوجی کی فروخت اور اس میں تعاون کی اجازت کی 6 خفیہ منطوریاں دینے کا انکشاف کیا تھا۔
اس معاہدے کی معلومات سے باخبر ذرائع نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ریک پیری کی جانب سے دی گئی منظوری کو پارٹ 810 اجازت نامہ کہا جارہا ہے، جس کے تحت کمپنیوں کو معاہدے سے قبل جوہری توانائی پر ابتدائی کام کرنے کی اجازت ہوگی لیکن پلانٹ کے لیے آلات بھیجنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اس سے قبل رواں برس کے آغاز میں امریکا کے جوہری ماہرین نے سیٹیلائٹ شواہد کی بنیاد پر شبہ ظاہر کیا تھا کہ سعودی عرب بیلسٹک میزائل کی تیاری میں مصروف ہے۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر مونٹری میں واقع مِڈل بری انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے میزائل سازی کے ماہر جیفری لوئس کا کہنا تھا کہ میزائل کی تیاری میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں دلچسپی کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے.
خیال رہے کہ گزشتہ برس سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ اگر ایران نےجوہری ہتھیار بنائے تو سعودی عرب بھی بنائے گا۔