بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے آواران کے علاقے پیرآندر میں ہونے والے حالیہ اپریشن کے رد عمل میں اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جنگ زدہ بلوچستان میں خواتین و بچوں کو نشانہ کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ریاستی افواج اجتماعی سوز کے طور پر خواتین و بچوں کو جبری گرفتار کرکے لاپتہ کررہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات میں شدت کے اضافے نے بلوچستان کے شہریوں میں خوف و سراسیمگی کے ماحول کو جنم دیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ آواران کے علاقے پیراندر زیلگ اور ڈھل بیدی میں ریاستی عسکری اداروں نے آئے روز کی طرح وسیع پیمانے پر ایک آپریشن کے دوران بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے گھر گھر تلاشی لی اور آپریشن کے دوران 11 افراد کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا فورسز کے ہاتھوں پیراندر زیلگ سے لاپتہ افراد کی شناخت عبدالئحی اس کی بیٹی شہناز اور اس کے ایک سال کے بیٹے فرہاد اور اس کی بیٹی صنم اور ایک خاتون نازل اور اس کے دس سالہ بیٹے اعجاز اور دس دن پہلے جنم لینے والی نومولود بچی ماہ دیم سے ہوئی ہے اور ڈھل بیدی سے ڈاکٹر نذیر ولد عیسی اور شبیر ولد غلام جان کو بھی فوجی آپریشن کے دوران لاپتہ کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔ خواتین و بچوں کی جبری گمشدگیاں، پرتشدد واقعات اور قتل عام بلوچستان میں ریاستی جاریت کی اعلی مثال ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان میں میڈیا کے حوالے سے کہا کہ اپنے آپ کو آزاد اور غیر جانبدار کہنے والا میڈیا اصل میں ریاستی عسکری اداروں کے ذیلی ادارے کی حیثیت سے کام کررہی ہے۔اس لیے بلوچستان میں ہونے والے اس طرح کے دل خراش واقع بھی میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے ہیں جبکہ بلوچوں کے حقوق کے دعویدار پارلیمنٹ میں بیٹھے پارٹیوں کے نمائندوں نے کچھ وقتی مراعات کی خاطر بلوچستان میں جاری اس بربریت پر چپ کا چادر اوڑھ لیا ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ ان کی خاموشی ریاست کو مزید بربریت اور تشدد کیلئے تقویت فراہم کر رہی ہے ۔ ایک دفعہ پھر انسانی حقوق کے دعویدار اور عالمی اداروں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں خواتین و بچوں کی جبری گمشدگیوں اور ان کے خلاف طاقت کے استعمال کی فوری طور پر روک تھام کریں۔