تعلیمات جنرل بعد از جنرل
میار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انسانی تاریخ میں ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں اور تاریخ بذات خود اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کوئی بھی نظریہ اور تحریک اس وقت تک پختگی اور ایمانداری کے ساتھ آگے بڑھ نہیں سکتا، جب تک اس نظریے کی خاطر عملی جدوجہد نہ کی جائے اور اس نظریئے کو زندہ رکھنے کی خاطر خود کو قربان نہ کردیا جائے۔ بلوچستان کی تاریخ اور موجودہ قومی تحریک میں (جنرل) اُستاد اسلم ایک ایسے نام ہیں، جنہوں نے بلوچ مزاحمتی تحریک کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی جانب منتقل کیا۔ انہوں نے جنگی حکمت عملیوں میں غیر معمولی تبدیلیاں لاکر نہ صرف دشمن کے اس خوش فہمی اور پروپیگینڈہ کو شکست دی کہ بلوچ قومی تحریک کمزور ہوچکی ہے اور یہ تحریک مزید نہیں چل سکتی، اس کے ساتھ ساتھ اُستاد نے اس سوچ اور غیر ضروری پردہ داری کو بھی جو بلوچ عوام اور انکے حقیقی رہنماؤں کے درمیان اصول پرستی، رازداری اور ایسے کئی بے بنیاد اور غیر ضروری منطقوں کی وجہ سے گرائی گئی تھی اس پردے کو اٹھا کر قوم سے روبرو ہوئے، اپنے خیالات، اپنا مشن، اپنا واضع پیغام عوام تک پہنچانے میں جو کامیابی حاصل کی وہ شائد ہی پس پردہ رہ کر یا انہی پرانے طریقوں پر کاربند رہ کر کہ دشمن پر حملہ صرف دشمن کو پریشانی میں مبتلا کرنے کی حدتک ہی محدود تھے ان طریقوں سےممکن ہوتا۔
جنرل اسلم چونکہ جنگی طریقوں میں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین دانشور و سیاسی مدبر بھی تھے انہوں نے حالات کے ضرورت کے تحت ایسی پالیسیاں مرتب کیں، جن کی بدولت بلوچ قومی تحریک میں جو غیر یقینی صورتحال، بے چینی، سستی، کاہلی سمیت اعتماد کا فقدان پیدا ہوا تھا کچھ ہی عرصے میں بد اعتمادیاں، اعتماد میں بدلیں، سستی کی جگہ حکمت عملیوں نے لے لیں، غیر یقینیوں کی جگہ یقینی طور پر وطن پر فدا ہونے کے خواہشات و جذبات پیدا ہوئے اور بے چین ہونے کے بجائے بلوچ نوجوان وطن پر قربان ہوکر چین سے اپنا فرض ادا کرنے کے فلسفے سے مطمئن نظر آئے اور اب بھی وہ سلسلہ بہتر اور منظم انداز میں جاری ہے۔
لیکن کیا اُستاد نے ان نظریات اور شعور کی پرورش پردے کے پیچھے چھپ کر کی؟ کیا انہوں نے فیصلہ لینے میں سستی دکھائی یا وقت کا ضیاع کیا؟ کیا انہوں نے ہر اُس جگہ پر خود کو تنظیم کا رہنما ظاہر نہیں کیا جہاں بلوچ وطن اور اس وطن پر قربان ہونے والے مجید بریگیڈ کے دوستوں اور بلوچ عوام کو ایک رہنما کی ضرورت پیش آئی؟
ان تمام سوالات کے جوابات بلوچ لبریشن آرمی کے دوستوں، ہمدردوں اور سپریم کمانڈ کونسل کے ساتھیوں کو سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم آج بھی اُستاد کے ان پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں، جہاں فیصلوں کی اہمیت دیکھ کر وقت ضائع کیئے بغیر حکمت عملی ترتیب دیکر عملی طور پر اپنے فیصلوں پر کاربند ہوا جائے۔ ہم تمام دوستوں کو سوچنا چاہیئے کہ کیا آج ہمیں بعد از جنرل ایک دوسرے ایسے رہنما کی ضرورت نہیں جو بلوچ قومی مزاحمت کو بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرسکے؟ کیا ہمیں یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ کس طرح اُستاد دشمن پر شیر کی طرح وار کرتے اور پھر اپنی قوم کو بھی یہ یقین دہانی کراتے کہ ہم ہمیشہ ہر جگہ دشمن سے نبردآزما ہونے کی خاطر تیار ہیں اور موجود ہیں۔ اُستاد اسلم نے جس طرح سے ایک چھوٹے سے عرصے میں عوامی رابطہ قائم کرکے خود کو عوام کے دلوں میں اتار دیا، اسی طرح سے بعد از جنرل تعلیمات جنرل بھی عوام کے دلوں میں اتارنے کی خاطر تنظیم کو اپنے سالار کا انتخاب کرنا ہوگا اور عوامی سطح پر اپنے عوام سے اور دنیا سے مخاطب ہوکر ہم کلام ہوکر اپنی جدوجہد، اپنی مزاحمت کے حوالے سے باخبر رکھنا ہوگا۔ اور سب سے اہم یہ کہ دشمن کو ہمیشہ یہ احساس دلانا ہوگا کہ جنرل کے کاروان کے ساتھی آج بھی اسی شدت کے ساتھ اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اُستاد کی شہادت سے تنظیم کمزور نہیں بلکہ پوری بلوچ قومی تحریک مظبوط ہوئی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔