تربت: ڈگری کالج کا ہاسٹل چار سال سے بند

366

طلبہ اور والدین کی جانب سے بارہا کالج ہاسٹل کو کھولنے کا مطالبہ کیا گیا ۔

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق عطاشاد ڈگری کالج تربت کی کئی سالوں سے ہاسٹلوں کی بندش کے سبب طلبہ کو سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔

گورنمنٹ بوائز عطاشاد ڈگری کالج تربت کے تینوں ہاسٹلوں کی بندش کو لگ بھگ چار سال مکمل ہونے کو ہیں ،ہاسٹلوں کی بندش کے سبب تربت شہر سے باہر تمپ، مند، بلیدہ ،دشت اور دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو رہائش کے حوالے سے سخت مسائل و مشکلات کا سامنا ہے ۔

علاقائی ذرائع کے مطابق طلبہ اور والدین کی جانب سے بارہا کالج کے ہاسٹلوں کوکھولنے کا مطالبہ کیا گیا مگر ہاسٹلوں کو طلبہ کے لیے نہیں کھولا جارہاہے ۔

عوامی حلقوں نے طلبہ کی طرف سے ایک بار پھر کمشنرمکران اورضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کیاگیا ہے کہ کالج کے ہاسٹلوں کوکھولنے کے احکامات جاری کر کے طلبہ کے لیے تعلیم کا حصول آسان بنایا جائے تاکہ غریب والدین کے بچے بھی تعلیم حاصل کرسکیں ۔

یاد رہے عطاء شاد ڈگری کالج کو گیارہ جنوری دو ہزار چودہ کو پاکستانی فورسز فرنٹیئر کور کی جانب سے چھاپے کے بعد بند کردیا گیا تھا، اس دوران فورسز نے متعدد طلباء کو حراست میں لیکر ہاسٹل کمروں سے طلباء کے کتابوں کو ضبط کیا تھا ۔

تیرہ جنوری دو ہزار چودہ کو فرنٹیئر کور کے ترجمان کرنل اعظم نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ تربت میں ڈگری کالج اور نجی انگلش لینگویج سینٹر پر چھاپہ مارکر کثیر تعداد میں پاکستان مخالف لٹریچر، بینرز، پمفلٹ اور دیگر تخریبی کتابیں برآمد کی گئی ۔

دوسری جانب سے سماجی و سیاسی حلقوں اور بلوچ طلباء تنظیموں کی جانب سے فورسز حکام کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے اس عمل کو بلوچ طلباء پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کا عمل قرار دیاگیا ۔ ان حلقوں کا کہنا تھا کہ جن کتابوں کو تخریبی لٹریچر قرار دیا گیا ان میں عالمی و علاقائی لکھاریوں کے تاریخ، سماج و دیگر موضوعات پر لکھی گئی کتابیں شامل ہے ۔