بھتہ خور سردار ۔ سیم زہری

221

بھتہ خور سردار

تحریر۔ سیم زہری

دی بلوچستان پوسٹ

کل رات سوشل میڈیا کے زریعے ایک رکارڈ کی ہوئی فون کال سننے کو ملی، جس میں خضدار سے تعلق رکھنے والے ٹھیکیدار کریم بخش شاہوزئی زہری اغواء برائے تاوان میں اٹھائے گئے اپنے بیٹے کے ساتھ نرمی برتنے اور اغواء کار سردار کے سپاہیوں کو ان کی جانب سے ادا کی جانے والی موسلی کی رقم میں رعایت کے لیے التجا کر رہے تھے-

مسئلے کو سمجھنے کے لیے آپ دوستوں کے سامنے کچھ حوالہ جات کے ساتھ تفصیل بیان کرتا ہوں تاکہ پڑھنے والوں کو آسانی ہو-

بلوچستان بالخصوص جھالاوان میں سرداروں کی جانب سے ایک کمیشن سسٹم رائج کیا گیا ہے جس میں کچھ سردار میر ملکر علاقے کے لیے منظور شدہ ترقیاتی منصوبوں کو ٹینڈر ہونے سے پہلے ایک دوسرے کے اوپر بانٹ لیتے ہیں، اس کے ساتھ ہی ہر سردار (مالکِ ٹھیکہ) اپنا پروجیکٹ کسی جاندار ہٹے کٹے ٹھیکیدار کو دے کر اپنا کمیشن فکس کر دیتا ہے اور باقی چادر کندھے پر رکھ کر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں- نہ ٹینڈر کی جھنجھٹ نہ فارم بھرنے کی نوبت پھر علاقہ اپنا، پروجیکٹ اپنا، ٹھیکیدار بھی اپنا (چکو) بچہ مطلب ہست و نیست کا خود ہی مالک- لیکن مسئلہ تب پیچیدگی اختیار کرلیتا ہے جب اسی پروجیکٹ کے ٹھیکیدار سے دوسرا میر بھی اپنا حصہ مانگ لیتا ہے تو ادا کرنے کی صورت میں ٹھیکیدار کو جیب کا نقصان ادا نہ کرنے کی صورت میں جان کا خطرہ-

بیچارا بکرا مرتا کیا نا کرتا کہ مصداق ٹھیکیدار حاجی کریم بخش فون پر صوبائی وزیر میر نعمت اللہ زہری برادر نواب سردار ثناءاللہ زہری کے نائب رحیم بخش جمالزئی عرف رحو سے یہ التجا کر رہا ہے کہ میر صاحب کے بیس لاکھ تو میں دینے کے لیے تیار ہوں بس آپ لوگ ایک ہی قبیلے (زہری) سے تعلق رکھنے کی بنا پر میرے سے موسلی کی رقم میں رعایت کریں-

ٹھیکیدار کریم بخش شاھوزہی کے بیٹے کو میر نعمت زہری نے تاوان کے عوض اغواء کیا ہے اور اس سے قبل بھی یہی کام میر زیب و مہر اللہ کرتے تھے۔

آگے بڑھنے سے پہلے موسیلی کا کچھ ذکر کروں کہ یہ جھالاوان میں خصوصاً زرکزئی سردار چہارم اور ان کے سپاہی موسلی کو پدری حق سمجھتے ہیں- یہ نواب کسی مظلوم کو پھنسانے کے بعد پھر اپنے نائب کو ثالث بناکر متاثرہ شخص کے پاس اس کا ہمدرد ظاہر کرکے بھیج دیا جاتا ہے اور اُسے اس بات کی یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ تمھارے مسئلے میں سردار یا نواب سے میں بات کرونگا اور تمھارا مسئلہ حل کراؤں گا- کیونکہ یہ ہوتے ہی چاپلوس ہیں اور سردار و نواب کے کہنے پر ایسی ناٹک کرکے لوگوں سے موسلی کے نام پہ پیسہ بٹورتے ہیں – اس غریب کو کیا پتہ کہ یہ ان کی دوسری چال ہے مجھ سے پیسہ وصول کرنے کی، لیکن پریشانی سے بچنے کے لیے وہ ان بے غیرت نائبوں کے بھی پاؤں پکڑ کر منت سماجت کرتا ہے –

مسئلہ میر و نواب کے منشا کہ مطابق ہی حل کیا جاتا ہے یہ ثالث صرف ہمدردی جتانے کی صورت میں مظلوم کو مزید گرفت میں لے کر اپنے لیے موسلی تو لے ہی لیتا ہے – البتہ بےغیرت سردار کے لیے چہارم وصول کرکے ان بیچاروں کو سڑکوں پر بھیک منگوانے پر مجبور کر دیتے ہیں –

اس ظلم کا سلسلہ کافی عرصے سے زہری قبیلے کے علاوہ جھالاوان میں بسنے والے ہر شخص کے ساتھ تسلسل سے چلتا آرہا ہے- لیکن کبھی کسی نے اس کی خلاف مزاحمت کرنے کی جرات نہیں کی ہے کیونکہ ان نوابوں نے اپنے کرائے کے قاتلوں کے ذریعے خوف کا ایسا نظام رائج کیا ہوا ہے کہ کوئی سر اٹھا کر آزادی کے ساتھ سانس تک نہیں لے سکتا –

آخر ان مظلوم لوگوں نے ظلم کو کس حد تک برداشت کرنے کی ذمہ داری لے رکھی ہے؟ کبھی تو ان میں سے کسی کی غیرت جاگ نہیں جاتی؟ آخر ہماری موت کا فیصلہ کرنے والے یہ نام نہاد نواب ہوتے کون ہیں؟

کبھی سوچا ہے کہ ہم اپنے ہی گھر میں غیر محفوظ کیوں ہیں؟ کبھی رات کے اندھیروں میں اپنی بے بسی کی چیخوں کو آواز دینے کی جرات کیوں نہیں کی ہے؟ کیا ظلمت کی اس دیار میں اس طرح مر مر کر جینا صرف ہمارے ہی نصیب میں لکھا ہوا ہے؟

الیکشن میں انہی نوابوں کو جتوانے کے لیے کس حد تک یہ نوابی چیلے خود کو گرا کر ان کی جیت کی خوشی مناتے ہیں، کیا ان کو اس لیے کامیاب کروایا کہ یہ نواب کے نائب آسانی سے ہمارے چادر اور چار دیواری کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے ہمارے نوجوانوں کو گھروں سے گھسیٹ گھسیٹ لے جائیں — یہ انتخابی دستے جو نواب کی جیت میں برابر کے شریک ہیں وہ ایک بار ضرور اپنے ضمیر کی عدالت میں جھانک کر دیکھیں کہ واقعی ہم نے ایک درست راستہ اختیار کیا ہوا ہے-

اگر آج یہ نواب اور ان کے نائب جن جرائم میں بھی ملوث ہیں، ان کے یہ لوگ جو انتخابات میں ان کی کامیابی کا سبب بنے ہیں وہ بھی ان جرائم میں برابر کے شریک ہیں- کبھی اگر نوابوں سے حساب لینے کی باری آئی تو میرے خیال میں کچھ کا حساب تو یہی نواب کے چیلے ضرور دینگے-

بجلی اور پانی کی سہولت خیرات کی مانند عطاء کرکے ہم پر احسان جتاتے ہیں- ہمارے معاشی اور تعلیمی نظام کے بربادی کے پیچھے انہی نوابوں کا ہاتھ ہے- اور ہم ان کی تعریف کے گیت گاتے ہوئے گھروں کو لوٹ کر سکون کی نیند سو جاتے ہیں-

لیکن کبھی ان لوگوں کے بارے میں سوچا ہے کہ پیسے نہ ہونے کی صورت میں نواب کے چہارم اور نائب کے موسلی کے پیسوں کی وقت پر ادا نہ کرنے کے ڈر سے رات بھر جاگ کر سرخ آنکھوں سے صبح اپنے بچوں کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے خود کا اس سماج میں پیدا ہونے کو مجرم سمجھتا ہے –

ان کے بارے میں کبھی سوچا ہے کہ جو نوابوں کی ظلم سے تنگ آکر خودکشی کرلیتا ہے-

ان کے بارے میں کبھی سوچا ہے جو نائب کی قدموں میں سر رگڑ رگڑ کر اپنے بچوں کی زندگی کی بھیک مانگتا ہے-

آخر کار یہ متاثرہ لوگ بےبسی اور بدقسمتی کو اپنا مقدر سمجھ کر کسی دن اس علاقے اس وطن کو چھوڑ کر کہیں دور بھوک پیاس کی زندگی گزارنے پر مجبور پو جاتے ہیں اور ایک انجان علاقے میں بسنے کے بعد سڑکوں پر چہرہ ڈھانپ کر بھیک مانگ کر اپنے بچوں کا پیٹ پال کر جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں –

ان نوابوں کے پجاریوں کو یہ بات کبھی بھولنی نہیں چاہیے کہ ان نائب اور نوابوں کے شر سے ہم زیادہ دیر تک محفوظ رہینگے- اگر آج ان نوابوں کا ہاتھ بٹاکر ان کے کام آسان کرتے ہو تو کل یہی نواب دھکہ دے کر اپنی چوکھٹ سے باہر پھینک دیگا-

پھر تم خود اپنی اس باری کی انتظار کرنا جس طرح اُن غریبوں اور مظلوموں پر ظلم ڈھایا گیا تھا- پھر تم تو کسی اور علاقے میں بَس بھی نہیں سکتے اور نہ کہ تمھیں بھیک مانگنے کا ہُنر آتا ہے- نہ ہی تم کہیں منہ دکھانے کے قابل رہوگے اور نہ ہی تمہیں کوئی اپنانے کو کوئی تسلیم کریگا-

تم پھر اسی طرح نوابوں کی ایسی چالوں کا شکار بنتے رہوگے اور موت کی بھیک مانگتے پھروگے لیکن اس وقت موت بھی تمھیں اپنانے سے انکاری ہوگا- تم اسی طرح ظلمت کی اس چکی میں پس کر کسی دن اپنے ہاتھوں سے اپنا گلا گھونٹ کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاؤگے اور قصہ تمام ہوجائے گا-

نواب اپنی عیاشیوں میں مگن کسی دن کسی مظلوم کے ہتھے چڑھ کر پرانا حساب کتاب ایک ساتھ چُکتا کریگا- جس طرح ماضی میں تین نوابوں نے مکمل ادھاری واپس کرکے سکون کی نیند کے مزے لوٹ رہے ہیں –

انجام تمھارا بھی وہی ہوا جو نواب کا ہوا لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ تم شرمندگی، بے عزتی اور بے غیرتی کی موت مرے اور تمھارا نواب جانوروں سے بدتر موت وصول کرکے ہمیشہ کے لیے دنیا کے باب سے نام مٹاکر سب کو رخصت کر گیا- کیونکہ وہ کہتے ہیں نا کہ ( ظلم نا پد آخر زوال ءِ)۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔