دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ میں ضلع نوشکی سے لاپتہ محمد ایوب کے لواحقین نے شرکت کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور ان کے گمشدگی کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کیا۔
لاپتہ محمد ایوب کے بہن بی بی کلثوم نے کہا کہ میرے بھائی محمد ایوب ولد عبداللہ کو 4 نومبر 2018 کو نوشکی سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جنہیں بیس دن بعد رہا گیا، رہائی کے بعد محمد ایوب کی ذہنی توازن بھگڑ گئی تھی لیکن انہیں 9 دسمبر 2018 کو ایک دفعہ پھر سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں حکومت بلوچستان سے گزارش کرتی ہوں کہ میرے بھائی کو بازیاب کیا جائے اگر محمد ایوب نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کرکے ملکی قوانین کے تحت سزا دی جائے۔
دریں اثنا وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے 28 جنوری 2016 کو نوشکی سے جبری طور پر لاپتہ نزیر احمد ولد محبت اللہ ، 23 پریل 2019 کو تربت سے جبری طور پر لاپتہ کیئے گئے بلوچستان یونیورستی میں ایم فل کے طالب علم عبدالرازق راج ولد عبداللہ، 26 جنوری 2016 کو ٹی ٹی سی کالونی گوادر سے جبری طور پر لاپتہ شوکت علی ولد کلمیر سکنہ دشت تربت اور 19 جنوری 2016 کو ناشناس کالونی بشیر چوک کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ کیئے گئے غلام یٰسین بگٹی ولد غلام نبی کو فوری طور پر بازیاب کر کے متاثرہ لواحقین کو ذہینی اذیت سے نجات دلانے کی گزارش کی گئی ہے۔
وی بی ایم پی کے مطابق مذکورہ افراد کے تفصیلات درج کرکے کیسز حکومت بلوچستان کو فراہم کردی گئی ہے۔