بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے لاپتہ مہر گل مری کے والدہ کی وفات پر افسوس اور گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت مہر گل مری کو 2015 کے درمیانی شب ان کے گھر سے سیکیورٹی اداروں نے جبری طور پر لاپتہ کیا۔ جس کے بعد اس کی والدہ اور پورے خاندان ان کی بازیابی کیلئے جدوجہد کرتی آ رہی ہے اور عدم بازیابی کی وجہ سے ان کی والدہ کہیں وقتوں سے بیمار تھی جو کہ بالاخر غموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ریاستی ظلم و جبر کہیں سالوں سے اپنے عروج پر ہے. فوجی آپریشنز ، عورتوں، بچوں، طلباء کی جبری گمشدگیاں، مسخ شدہ لاشیں ،استادوں کی ٹارگٹ کلنگ ،عورتوں پر تیزاب پاشی ،بلوچ طالب علموں پر علم کے دروازے بند کرنے کے لئے تعلیمی اداروں کو فوجی چوکیوں میں تبدیل کرنا ریاست کی غلیظ پالیسیوں کا شاخسانہ ہے جس میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے ور یہ ریاستی جبر کی اعلی مثالیں ہیں.
ترجمان نے کہا کہ ریاست کے ظلم اور جبر کی وجہ سے کہیں مائیں،بہنیں اور بیویاں اپنے پیاروں کی عدم بازیابی کی وجہ سے شدت غم سے نڈھال ہیں اور مہر گل مری کی والدہ کی طرح کہیں مائیں اپنے پیاروں کی انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے چل بسے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں ایک بار پھر عالمی انسانی حقوق کے ادارے ،اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ان کی خاموشی ریاست پاکستان کی ظلم و جبر کی پالیسیوں کو جواز فراہم کر رہے ہیں لہذا ان عالمی اداروں کو چاہئے کہ اپنی خاموشی توڑ کر بلوچ قوم کو انصاف فراہم کریں۔