بلوچ طلبہ سیاست – احسان بلوچ

375

بلوچ طلبہ سیاست

تحریر: احسان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان آج کے دور میں اس خطے میں سب سے زیادہ زیربحث موضوع بن گئی ہے، اس کے کچھ وجوہات ہیں ایک یہ کہ بلوچ اور بلوچستان ماضی بعید سے لیکر روز حاضر تک, مزاحمت کا مرکز رہا ہے دوسری یہ کہ وسائل اور دولت سے مالا مال خطہ ہے، اس کے علاوہ بلوچیت کے ایک خصوصیت میں یہ بھی شامل ہے کہ بلوچ، مزاحمتی کردار کا حامل ایک قوم ہے جو ہر وقت جارہیت کے خلاف مزاحمت کرتا رہے گا۔ اس کے علاوہ بلوچ اور بلوچستان کے زیربحث رہنے کی وجوہات میں اس کے بیشمار اور بے بہا معدنی دولت اور وسائل شامل ہیں۔

اس اہمیت اور جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے دوست اور دشمن سب بلوچستان کو اپنے روز مرہ گفت و شنید میں شامل کرتے رہیں گے۔ سیپیک ہو یا سیندک، مارگٹ ہو یا ریکوڈک ، دو در ہو یا کنراج ، ہنگول ہو یا راسکوہ، بولان ہو یا سوئی کون سا ایسا خطہ بلوچستان کا ہے جہاں معدنی دولت اور قدرتی حسن نہ ہو۔ یہ حسین جنت ارضی اب وہ پیاری دلہن بنی ہے، جو قیمتی زیورات اور اپنے بے پناہ حسن کی وجہ سے ہر نوجوان کے آنکھوں میں بسی ہے۔ لیکن یہ دلہن جو ہمارا وطن بلوچستان ہے، اس کی طرف اٹھی میلی نگاہیں بے نور ہوجائیں اور ہر بلا و آفت سے اللہ اسے محفوظ رکھے۔ نظریاتی سیاست وطن کو ہر برائی اور آسیبوں کے سایوں سے بچا سکتی ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر دور میں بلوچ طلبہ سیاست بحران کا شکار ہوتا چلا آیا ہے۔ اس کے ذمہ دار ہر وقت وہ بلوچ دشمن عناصر اور پارٹیاں ہوتی رہی ہیں، جو پارلیمانی سیاست کے نام پر عوام کے لوٹ مار میں شریک جرم ہیں، ان لٹیروں نے بلوچستان کو دشمن کا مال سمجھ کر بےدریغ لوٹا، کسی نے ان کو نہیں پوچھا سیاست ،معاشرت سب تباہ و برباد کردیا۔

طلبا سیاست کو بی ایس او نے ایک مظبوط شکل اور رخ دیا، وہ رخ علم اور زانت کا رخ ہے، جس رخ اور راستے سے بلوچ ورنا گذر کر روشنی کے منزلوں کو طے کرتے ہیں۔ جب بھی طلبہ سیاست اپنے عروج پہ پہنچنے کے قریب ہوتے تو بہت سے ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس سے پوری قوم کو نقصان اور مسئلوں سے دوچار ہونا پڑا۔ طلبا کو ذہنی طور پر زدوکوب کرکے انہیں سیاست اور علم سے دور کیا گیا۔ کوئی بھی ان حقیقتوں پر پردہ نہیں ڈال سکتا، حالانکہ طلبہ تنظیمیں اور کسی چیز سے وابستہ نہیں ہیں، محض وہ آئینی دائروں میں رہ کر طلبہ حقوق کی باتیں کرتے ہیں اور اپنے قوم کی ترقی کے لیئے لوگوں میں شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ طلبا سیاست کا محور اس کے تعلیمی ادارے ہوتے ہیں، اپنے تعلیمی حقوق سے انھیں دور کیا گیا۔ تعلیمی دائرے میں رہ کر وہ ظلم, غلطیاں اور کچھ حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کے ردعمل میں کچھ قوتیں ہیں جو تعلیمی اداروں میں طلبہ کے درمیان تصادم پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے تاکہ پوری قوم حقیقت سے دور ہو جائے، پھر جہالت کے اندھیروں میں پڑے رہیں تاکہ لوٹ مار آسان ہو جائے۔ طلبہ تنظیموں اور طلبہ سیاست کو جتنی بحرانوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے یا جتنی مصیبتیں واقع ہوئی ہیں، اس میں کچھ ہمارے اپنے فعل اور غلط فیصلوں کی وجہ سے اور کچھ بلوچ دشمن عناصر کی وجہ سے ہیں لیکن پھر بھی بی ایس او کے نوجوان قیادت نے طلبا کو علم سے جوڑے رکھا اور ان کو ہر دور میں تعلیم اور تربیت کی ترغیب دی۔

بلوچستان کا واحد سیاسی وارث بی ایس او کے نظریاتی سنگت ہیں، ان سنگتوں کی علمی جدوجہد سے نام نہاد سیاست دان خائف ہیں کیونکہ بی ایس او کے سیاسی کارکن ان جیسے لٹیروں کے اصل چہرے عوام کے سامنے بے نقاب کریں گے۔ غریب بلوچ عوام کو ہر دور میں انہی ظالم ووٹ کے پجاریوں نے اپنے مقصد اور مفاد کے لیئے استعمال کیا لیکن اب بلوچ نوجوان ان کے عزائم کو بے نقاب کرکے ان کے غلط کاریوں کے خلاف عوام کو منظم کرے گی۔عوام بیچارہ ان غیر سیاسی تجارتی اور کاروباری ٹولے کے استعصال سے بیزار ہوچکی ہے۔ بحران کی اس کیفیت سے نکلنے لیئے عوام اور نوجوان کرپٹ اور کاروباری ٹولے کو مسترد کر دیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔