دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر نواب بلوچ، نے بلوچستان میں تعلیمی صورتحال کے حوالے سے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کیا گیا جبکہ بی ایس اے سی کے جنرل سیکریٹری سلمان بلوچ، سیف بلوچ، کوئٹہ زون کے جنرل سیکرٹری زکیہ بلوچ ان کے ہمراہ تھے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم آپ کی توجہ بلوچستان میں بلوچ طلباء کے ساتھ سالوں سے روا رکھے جانے والا ناروا سلوک ناانصافی اور ظلم پر مبذول کروانا چاہتے ہیں جیسے کہ آپ سب کے علم میں ہے کہ بلوچستان کو ہمیشہ دیگر صوبوں کے نسبت کم درجہ دیا گیا ہے اور یہی ناانصافیوں کی وجہ سے آج بلوچستان پاکستان کے دیگر صوبوں کے نسبت ہر چیز میں پیچھے ہے بلوچستان میں تعلیم حاصل کرنا ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے اس کی وجہ غربت ناخواندگی صوبائی و وفاقی حکومت کی عدم توجہی اور بلوچستان کے حالات رہے ہیں لیکن جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ بلوچ طلباء کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک، ناانصافی اور اُنہیں ہمیشہ کی طرح تعلیم سے دور رکھنے کی سازش ہے جس کی وجہ سے بلوچ نوجوان زیادہ تر تعلیمی اداروں کے بجائے باہر کے ملکوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں بلوچستان میں تعلیم کیلئے ہمیشہ راہیں بند کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں ان کوششوں میں دانستہ و نادانستہ سب ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج ہمارے پریس کانفرنس کا مقصد و اغراض بلوچ طلباء کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک ظلم و ناانصافی اور ان کے خلاف استعمال ہونے والے سازشی حربے و ہتھکنڈوں کے حوالے سے آپ سب کو اپنے تحفظات اور خدشات کے بارے میں آغا کرنا ہے سب سے پہلے ہم آپ کی توجہ صوبائی گورنمنٹ کی جانب سے طلباء سیاست پر لگائے گئے غیر قانونی و غیر اخلاقی پابندی کی جانب لانا چاہتے ہیں دنیا کی کوئی بھی مہذب ریاست یا حکومت سیاست جیسے بنیادی انسانی حق پر پابندی نہیں لگا سکتا جبکہ طلباء سیاست کسی بھی مہذب ریاست کی بنیاد ہوتی ہے جبکہ اگر ہم بلوچستان کی بات کریں تو یہاں پہلے سے سیاسی بانجھ پن عام ہے جلسے و جلوسیں نہیں ہوتے جبکہ ایک محدود پیمانے پر بلوچ طلباء چھوٹے چھوٹے پروگرام سیمیناروں اور اسٹڈی سرکل سے طلباء میں سیاسی سماجی معاشی اور معاشرتی علم کا بیج بونے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ آنے والے وقت میں طلباء ملک میں کسی بھی پلیٹ فارم پر ایک مثبت کردار ادا کر سکیں لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندی کھلم کھلا علم و تعلیم اور طلباء دشمنی ہے بلوچ پہلے سے ہی سیاسی حوالے سے بانجھ پن کا شکار ہے اب ان کی کوشش ہے کہ بلوچ مزید اس بیماری کا شکار رہیں تاکہ آئندہ کوئی بھی پڑھا لکھا نوجوان سیاست کی جانب راغب نہ ہو اس عمل کو ہم سراسر بلوچ نوجوانوں کے ساتھ ایک ناانصافی تصویر کرتے ہیں اور صوبائی حکومت کا یہ غیر قانونی فیصلہ ہمیں کسی بھی طرح قبول نہیں ہے جبکہ اس پابندی کا کوئی بھی اخلاقی و قانونی جواز نہیں بنتا ہے یہ ایک سازش ہے تاکہ بلوچستان میں سیاسی جمود برقرار رہیں ہم سمجھتے ہیں ان جیسے غیر اخلاقی و غیر قانونی فیصلوں پر آپ صحافی حضرات سیاسی و سماجی پارٹیوں سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی خاموشی اس جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے خاص کر بلوچستان میں قومی حقوق کی رکھوالی کرنے والے دعویدار پارٹیوں کی خاموشی عجیب اور سمجھ سے باہر ہے یہ بلکل ایک غیرقانونی عمل ہے جس کو ہم کسی بھی طرح قبول نہیں کر سکتے ہیں
انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو ایک اور اہم مسئلے کے بارے میں اپنے تحفظات سے آغا کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان یونیورسٹی میں سالوں سے جاری چیکنگ کے نام پر طلباء کی تذلیل ہے اگر آپ میں سے کسی نے بلوچستان یونیورسٹی کا دورہ کیا ہے تو آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ وہاں سیکورٹی کے نام پر بلوچستان کے واحد یونیورسٹی کو فوجی حصار میں تبدیل کیا گیا ہے جو ایک تعلیمی ادارے سے زیادہ فوجی قلعہ لگتا ہے جس سے طلباء ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں اور ڈر و خوف کی وجہ سے اپنے تعلیم پر بہتر توجہ نہیں دے پا رہے ہیں، پڑھائی کیلئے دنیا میں سب سے بہتر آرام دہ اور خوبصورت ماحول کی تعیناتی ہوتی ہے لیکن یونیورسٹی میں طلباء بندوقوں اور چیک پوسٹوں کے دائرے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس کی وجہ سے طلباء ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں لیکن اس مسئلے پر بھی میڈیا صوبے کی نمائندہ سیاسی پارٹیاں اور یونیورسٹی انتظامیہ سمیت وائس چانسلر و دیگر پروفیسرز و ٹیچرز خاموش ہیں ہم سمھتے ہیں کہ یہ طلباء کے ساتھ زیادتیوں کا تسلسل ہے اس مسئلے پر قوم کی نمائندگی کے دعویدار پارٹیوں کی خاموشی اُن کی موجودگی اور نمائندگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے
انہوں نے کہا چونکہ آپ کو معلوم ہے کہ بلوچ طلباء کا تعلق غریب گھرانے سے ہے جو ہزار مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد ہی اپنے یونیورسٹی کے فیسوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں لیکن پلازوں کے خرچے کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں آج چھ مہینے سے زیادہ کا عرصہ بیت چُکا ہے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلباء و طالبات کا الاٹمنٹ نہ کرنا باعث تشویش و طلباء کے ساتھ ناانصافی ہے جسے ہم طلباء کو تعلیم سے دور رکھنے کی ایک سازش سمجھتے ہیں انتظامیہ کو چاہیے کہ خواب غفلت میں سونے کے بجائے طلباء کی قیمی وقت کو ضیاع کرانے سے بچائیں اور ان کی الائٹمنٹ کیا جائے تاکہ وہ سکون سے پڑھ سکیں اور ہم ایچ اے سی کی جانب سے بلوچستان یونیورسٹی میں فیسوں کی دوگنا کرنے کی سخت مذمت کرتے ہیں طلباء پہلے کے فیس کو ہی بڑی مشکل سے پورا کر پاتے تھے جبکہ بعض طلبا و طالبات فیس نہ ہونے کی وجہ سے اپنی پڑھائی پورا نہیں کر پاتے تھے لیکن اب فیس کو مزید بڑھایا گیا ہے جو اسی تعلیم دشمنی کا تسلسل ہے ہم ایچ اے سی سمیت دیگر متعلقہ ذمہ داران سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ فیسوں کے دو گنا کرنے کے فیصلے کو واپس لیا جائے تاکہ غریب طلباء کی تعلیمی زندگی تباہ نہ ہو۔
انہوں صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنے پیشے سے ایمانداری کا ثبوت دیتے ہوئے طلباء کو درپیش ان مسائل کے بارے میں حکام تک ہماری آواز پہنچائیں حکمران اور حکام تک آواز پہنچانے کا موثر ذریعہ میڈیا ہے طلباء سیاست پر پابندی، چیکنگ کے نام پر یونیورسٹی کو فوجی حصار میں تبدیل کرنا، طلباء کی الاٹمنٹ روکنا اور فیسوں کو دوگنا کرنا یہ سب طلباء کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کی انتہا ہے اگر صوبائی حکومت اور حکمران واقعی چاہتے ہیں کہ صوبے میں شر خواندگی بہتر ہو تو بیان بازی سے نکل کر عملی طور پر طلباء کے مشکلات کا حل نکالا جائے تاکہ وہ اپنے قوم کیلئے مستقبل میں کچھ کرنے کا قابل بن جائے۔