بلوچ خواتین ناپاک فوج اور ہم – پیادہ بلوچ

592

بلوچ خواتین ناپاک فوج اور ہم

پیادہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہم اس وقت تک غلامی کی نیند سے بیدار نہیں ہوتے ہیں، جب تک خاکی وردی اور لمبے بوٹ والے ہمارے اپنے ہی گھر کے دروازے کو بنا دستک کے توڑکر اندر داخل نہ ہوجاتے ہیں، چادرو چار دیواری کی پا مالی نہ کی ہو، گھر نہ جلائے ہوں۔ تجوری خالی نہ کی ہو، تب تک ہم بیدار نہیں ہونگے، اگرچہ ہمارے ہمسائے کے گھر میں آکر توڑ پھوڑ کربھی دے تو ہم یہ کہہ کر بات ٹال دینگے کہ میں فلانا قوم سے تعلق رکھتا ہوں، مجھے اس مسئلے میں نہیں پڑنا۔

زید یہ کہہ کر خاموش ہو گا کہ میں تو ماہانہ تنخواہ لیتا ہوں، مجھے ایک جھوٹ بولنے سے سینئیر تجزیہ کار کے لقب سے یہ معاشرہ نوازتا ہے، جب چاہوں مظلوم کو ظالم، ناپاک کو پاک اور زہر کو شہد لکھوں میرا قلم میرے لفظوں کے عیوض بنڈلوں روپے کی خوشبو سونگھاتی ہے۔

بکر یہ کہہ کر منہ موڑلیتا ہے کہ مجھے تو اس لفڑے میں نہیں پڑنا، اس ہمسایئے کی خالی پلاٹ کی قیمت میں کمی کیسے واقع ہوگی، میرا پلاٹ سکوائر کے بدلے ایکڑوں میں کب شمار ہوگا۔

مجھے کروڑ پتی بننا ہے، بالفرض وہ کروڑ پتی بن بھی جائے، تو چند دنوں کے اندر ریاستی ڈیتھ سکواڈ میر نعمت اللہ زہری جیسے توتلے کے چمچوں نائب غنی، نائب مجید چنال اور دن دہاڑے معصوموں کے خون سے رنگے ہاتھوں والے رحیم بخش جیسے کارندوں کے پیٹ بھرنے کیلئے اغوا ہوجاتاہے۔

میں اپنے موضوع کی جانب آتا ہوں، یہ سب اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک اس آگ کی لپیٹ ہمارے اپنے ہی دہلیز تک رسائی حاصل نہ کرچکی ہو اور جب یہ نوبت آبھی جائے تو افسوس کے سوا لفظ کوئی ملتا ہی نہیں۔ پھر کوئی یہ افسوس کا ورد بنا کر کہتا ہے کہ میں نے کیوں سرمچاروں کا ساتھ نہیں دیا۔ کاش میں بندوق کو تھام کر دشمن کا راستہ روک لیتا، کاش میں ساتھ نہیں دیتا، کاش میں بندوق کو تھام کر دشمن کا راستہ روک لیتا، کاش میں غیر کو اپنے آس پاس جھانکنے کی گنجائش نہیں دیتا، کاش میں شہادت کی انگلی کو سرمچاروں کی مخبری میں استعمال نہیں کیا ہوتا۔ کاش میں کالے شیشے والے سرف گاڑیوں میں سوار کالے بھیڑیوں کا راہ ہموار نہیں کرتا وغیرہ۔ کاش ہی زبان کا ورد بننتا ہے، اس وقت گلے کا پھندہ بنکر اس شخص کے ہلک میں پکڑنیکا نتیجہ بن جاتا ہے اور وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

کوئی بھی یہ نہ سمجھے کہ میری باری نہیں آئے گی کیونکہ یہ ناپاک ریاست اگر مشکے، آواران سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے پاک دامن شیرزال خواتین کو نامعلوم مقام منتقل کرسکتی ہے تو وہ نامرد مردہ ضمیر لوگوں کو بھی اپنے جال کا شکار بناسکتا ہے، تو ہم سب کو چاہیئے کہ ہم بلوچی تاریخ کا حوالہ صرف اس خاطر زیر بحث نہ لائیں کہ میں بلوچ ہوں، تم براہوئی ہو، عورتوں کا شوز میں شرکت کرنا بد فعلی کا نتیجہ ہے یا عورتوں کو بلا وجہ گھر میں محصور کرنا ہی مردانگی ہے۔

بلکہ بلوچی حیاء، ننگ و ناموس کی پاسداری یہ ہے کہ غیر قوم اگر بلوچی ننگ یا زمین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے تو اسکی آنکھیں نکالنا بلوچ روایت ہے۔ ہمیں اپنی غیرت و مردانگی کا مظاہرہ ان بلوچی رسم و رواج کے پاسداری کرتے ہوئے باہمی اتفاق اور اتحاد کی صورت میں کرنا چاہیئے اور حقیقی معنوں میں بہتر زندگی گذارنے کا یہی سلیقہ ہے، جو حقیقی اسلام بھی ہمیں یہی سکھاتی ہے مگر آج ہم ایمان دار مسلمان صرف ٹیوی چینلز کی سکرین تک ہی مومن ہیں۔

آج اسلام بھی میڈیا کے کیمروں میں مقید ہوچکی ہے، اشرف المخلوقات کی عقل پیمرا کے رولز کو فالو کررہی ہے، جسکا سلسلہ ناپاک ریاست کی خونی پالیسیوں پر جاکے ختم ہوتا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔