بلوچی روایات کی پاسداری – اشک بلوچ

436

بلوچی روایات کی پاسداری

اشک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

سترہ اپریل کی رات جب گوادر اور کراچی کے درمیان سفر کرنے والے 6مسافر بسوں کو بزی پاس ہائی وے پر روکا گیا۔ اور چھ مسافر بسوں میں سوار تقریبا ًتمام کے تمام مسافروں کے شناختی کارڈ سمیت (Employee Card) بھی چیک کیا گیا۔ مکمل چھان بین کے بعد 14انتہائی اہم اہلکاروں کو بسوں سے اتارا گیا۔ اور انھیں مسافر بسوں سے دبہت دور لے جاکر نشان ِ عبرت بنا یا گیا۔ اب اس ایک واقعے میں ہی کوئی بھی (War Analyst)اس بات کی مکمل تائید کریگا کہ بلوچ نرمزاروں اور بلوچ جہدِآجوئی کے متوالوں نے کس قدر احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ کس کمال کے ساتھ باقی معصوم جانوں کی حفاظت کی ہے۔ یہ تو آسان تھا اور ہو بھی سکتا تھا کہ ان بسوں میں موجود باقی لوگوں کو بھی نقصان پہنچایا جاتا۔ ا ان کی جانوں کی نہ سہی ان کے قیمتی سامان ہی لے جایاجاسکتا تھا۔ جیسا کہ پاکستانی فورسز کے بزدل کرتے ہیں ۔ کسی بے گناہ کے گھر میں چھاپہ مارتے ہیں ۔ اگہ مطلوبہ شخص نہ ملے تو لوٹ مار کا بازار گرم کر دیتے ہیں۔ کتنے ہی گھروں سے ، کتنے ہی بہنوں کے جہیز کا سامان لوٹ کے لے گئے ہیں ۔ لیکن بلوچ مزاحمت کاروں نے نہ صرف انکا خیال رکھا ہے بلکہ اکثر اوقات مختلف ویڈیوز میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ بلوچ سرمچار مزدوروں کو کام بند کرنے کا کہتے ہیں اور ان کو بلوچستان سے نکلنے کے لیے کرایہ بھی دیتے ہیں۔ تو یہ ہوتی ہے مزدوروں کی مزدوری کا خیال ، انسان و انسانیت، بلوچ و بلوچیت اور بلوچی روایات کی پاسداری۔ یہی وہ اعلیٰ و ارفع انسانی قدریں ہیں جن کابلوچ سرمچاروں نے اپنی جدوجہد کے روزِاول سے خیال رکھا ہے۔ اور اس کا شاندار مظاہرہ 17اپریل کی رات کو بھی ہوا۔

اس واقعے کے بعد پاکستانی میڈیا نے حسب سابق وہی منافقانہ رویہ برقرار رکھا۔ جیسے ہی اس واقعے کی خبر آئی تو پاکستانی میڈیا میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ کہ ہائے افسوس! دہشتگردوں نے بے گناہ مسافروں کو مارا ۔ ہائے افسوس! بے گناہوں کا خون بہا۔ اور اسی طرح واویلا ہوتا رہا جو روایتی انداز ہوتا ہے ،پاکستانی میڈیا کا۔ بالآخر ایک ایک کرکے سارے نیوز چینلز یہ خبر دیتے رہے کہ ان میں سے 9 بحریہ ، 4فضائیہ اور 1کوسٹ گارڈ کےاہلکار تھے۔ اس صورتِ حال میں ایک عام انسان جو روز میڈیا کے سامنے بیٹھا ہوتا ہے، وہ بھی اس چیز کو دیکھ اور محسوس کر سکتا تھا کہ اس دفعہ پاکستانی میڈیا حواس باختہ سی لگ رہی تھی۔ کہ یہ کیا ہوا ہے۔ اور کتنے منظم انداز میں ہو ا ہے۔ کہ مسافروں کے درمیان سے پاکستانی فورسزکے اہلکاروں کو نہ صرف ایک ایک کر کے الگ کیا گیا ہے بلکہ باقی معصوموں کی جانوں کی حفاظت کے لیے ان گناہگاروں کو دور لے جا کر سزا دی گئی ہے۔

اس شاندار انٹیلی جنس اور بہترین کاروائی سے نہ صرف شہیدوں کی ارواح کو سکون ملا ہوگا ، بلکہ ہر جہدکار اس پر فخر کر رہا ہے۔ کیونکہ ایک حد تک بلوچ قوم ایک تذبذب کا شکار تھی کہ ہماری جدوجہد جو انگنت مشکلات سے گزر رہی ہے کا مستقبل پتہ نہیں کیا ہو؟ کیونکہ اس گھر کو جلانے میں غیروں سے زیادہ اپنوں کا ہاتھ ہر جگہ ملا۔ کچھ نادانیوں کی وجہ سے۔ کچھ مالی مشکلات کی وجہ سے۔ کچھ اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کی وجہ سے پھسلتے گئے اور اس جہد کو کمزور سے کمزور تر کرتے گئے۔ لیکن اس اتحاد نے گھر کے چراغ کو گل ہونے سے بچا دیا۔ ایک عام تاثر یہ دیا جاتا تھا کہ بلوچ کبھی اتحاد نہیں کرسکتے کیونکہ بلوچ کی فطرت میں یہ شامل نہیں کہ وہ ایک ساتھ ملکر کام کرے۔ اس اتحاد نے ایسی ان گنت اغلاط کی کمر توڑ دی ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ بلوچ قوم نہ صرف اتحاد کر سکتی ہے بلکہ اتحاد کرکے دورِ حاضر کے سب سے بڑے مکار ، منافق اور غیر فطری ریاست کو اسکا اوقات یاد کرواسکتی ہے۔

یہ شاید پہلی مرتبہ ہے جب اس ریاست کے وزیر خارجہ نےپریس کانفرنس کی تو حواس باختگی اس کے چہرے سے چیخ چیخ کر بول رہی تھی۔ اس کی زبان اسکا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ اور شروع سے آخر تک اس کے ہوش اڑے ہوئے تھے۔اور دوسری اہم ترین بات میرے نزدیک یہ تھی کہ اس انتہائی اہم عہدےدار کو بھی غلط انفارمیشن دی گئی تھی کہ یہ کاروائی کس تنظیم نے کی ہے۔ حالانکہ بی بی سی جیسے مستند ادارے نے بلوچ راجی آجوئی سنگر(براس) کے حوالے سے نہ صرف واقعے کی قبولیت کی خبر دی بلکہ اس کے بننے اور سابقہ حملوں کا بھی ذکر کیا۔ اس کے باوجود پاکستانی وزیر خارجہ کی اس تنظیم سے نا بلدی یا تو اس کی کم علمی یا پھر ایک نئے چال ، مکرو فریب ، مکاری اور دنیا کو دغا دینے کا ایک اور حربہ ہے۔ اگر یہ دنیا کو دغا بازی کا ایک اور حربہ ہے تو پھر کب تک ؟ آخر کب تک بکری کی ماں خیر منائے گی۔

بلوچ قوم کے لیے بلوچ راجی آجوئی سنگر(براس) کا قیام ایک انتہائی تسلی بخش، پرسکون اور مسرتوں کی نوید ہے۔ اب میدانِ عمل میں برسرِپیکار ہر اس جہد کار کا فرضِ اولیں ہے جو اس ایمان کے ساتھ اس مشن کے ساتھ جڑا ہوا ہے کہ آج نہ سہی تو کل ہم ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے حصول میں کامیاب ہو جائینگے۔ وہ اس اتحاد کو ہر روز مضبوط سے مضبوط کرتے جائیں ۔اس کو کسی بھی طرح متزلزل ہونے سے بچائیں۔ اپنے ذاتی انا، خواہشات اور کسی بھی کج روی سے اس کو بچائے رکھیں۔ اور یقیناً قوم اس اتحاد کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے بلکہ اسے طویل غلامی سے نجات کا موئثر ترین ذریعہ بھی سمجھتی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔