بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان یونیورسٹی کو ایک عسکری انسٹیوٹ میں تبدیل کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی اس وقت مکمل طور پر انتظامی، اکیڈمک اور تعلیمی طور پر بحران کا شکار ہے۔ تمام تر اختیارات عسکری ادارے اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے ہیں۔ سیکیورٹی کے نام پر طلباء و طالبات کی تذلیل کی جا رہی ہے. یونیورسٹی کو مکمل طور پر ایک بڑی جیل میں تبدیل کیا گیا ہے حتیٰ کہ سیکیورٹی کے نام پر کیفے ٹیریا تک بند کر دئیے گئے ہیں۔ ہاسٹل میں بھی طلباء و طالبات کی الائٹمنٹ نہیں ہو رہی ہے ۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں طالب علم ہونا اپنے لیے پُر خطر زندگی کی انتخاب کرنے کا مترادف ہے۔ بلوچستان کے طالب علم اپنے آبائی علاقوں سے لیکر تعلیمی اداروں تک جبر کا سامنا کررہے ہیں۔ تعلیمی ادارے انسانی شعور کو پیدا کرنے اور ترقی دینے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں جہاں طالب علم سماجی، سیاسی اور معاشی نظام کو بہتر سے بہتر کرنے کے لیے تحقیق کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ طلباء مکالمہ جیسے ہنر سے آشنا ہوتے ہیں جس سے تنقیدی شعور حاصل کرکے فرسودہ نظام کے خلاف انقلابی تحریک جنم دیتے ہیں لیکن بلوچستان کے تعلیمی ادارے جہاں عسکری اداروں کی موجودگی اور خوف سا ماحول طلباء کو نفسیاتی مریض بنارہے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی کا ماحول نوآبادیاتی دور کی بدترین مثال ہے۔ طلباء سیاست کو یونیورسٹی سے عملی طور پر بے دخل کیا گیا ہے۔یونیورسٹی میں مکمل طور پر گھٹن کا راج ہے طلباء و طالبات کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔تمام اہم عہدوں پر عسکری اداروں کے منتخب افراد کو تعینات کیا گیا ہے جن کا کام طلباء کو ذہنی طور ٹارچر کرنے کے سواء کچھ نہیں ہے۔یونیورسٹی میں داخل ہونے سے لے کر کلاسز تک پہنچنے کا سارا عمل تذلیل اور ذہنی کوفت ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ریاستی عسکری اداروں نے سیکورٹی کے نام پر یونیورسٹی کا مکمل کنٹرول حاصل کرکے ہزاروں طلباء طالبات کے مستقبل تاریک کردیے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ بلوچستان کے سب سے بڑے یونیورسٹی ایک فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہونے کے باوجود پروفیسرز اور لیکچرار خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ بلوچستان کے طالب علم اور اساتذہ کو اپنے مستقبل محفوظ بنانے کے لیے خوف اور گھٹن کے ماحول سے نکل کر آواز بلند کرنا ہوگا۔