بلوچستان میں تعلیم کی تباہ حالی
احسان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یوں تو پورے ملک میں تعلیم اور تعلیمی ادارے گوناگوں مسائل کا شکار ہیں لیکن بلوچستان کے تعلیمی ادارے قابلِ رحم ہیں۔ یہاں ایک عرصے سے یہ رواج چلا آ رہا ہے کہ اساتذہ کھاتے پر چل رہے ہیں۔ ہر اسکول میں کوئی متبادل، کم تنخواہ پر اصل استاد کی جگہ فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ استاد جب اسکول نہیں جاتے تو اس قوم کے مستقبل کا کیا ہو گا؟
بلوچستان کے زیادہ تر اسکولوں میں بنیادی سہولیات ناپید ہیں۔ کلاس رومز، سائنسی لیبارٹریز، لائبریری، واش رومز، پینے کے لیے پانی۔ حتیٰ کہ لڑکیوں کے اسکولوں میں واش رومز و بیٹھنے کے لیئے ڈیسک اور دیگر بنیادی ضروریات تک نہیں۔ سرکاری سطح پر ہر سال بجٹ اعلان ہوتا ہے۔ اسکولوں کے لیے فنڈز مختص ہوتے ہیں۔ ہر ضلعے کو اس کا حصہ دیا جاتا ہے لیکن وائے شومئی قسمت کہ کرپٹ عناصر سب فنڈز ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
بلوچستان کے کئی سرکاری اسکولوں میں ٹیچروں کی غیرموجودگی سے تعلیمی نظام تباہی کی طرف گامزن ہے، جو کہ اپنی آرائش اور خواہشات کی تسکین کے دوران دوسرے طالب علموں کا استحصال کر رہے ہیں۔ جس سے تعلیمی نظام تباہ ہو رہا ہے اور بچے معیاری تعلیم سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
ہمیں ان منفی رویوں سے طلبہ کو بچانے کے لیئے اور طلبہ حقوق کے تحفظ کے لیئے لوگوں میں شعور اجاگر کرنا چاہیئے اور آواز بلند کرنا چاہیئے۔ اگر ان لوگوں کو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو عین ممکن ہے کہ بچوں کی تعلیم اور مستقبل بری طرح تباہی کی طرف گامزن ہو۔ یہ سارے منفی رویے ایک سازش کے تحت ہیں جو ایک غیراخلاقی عمل ہے۔ اگر یہ غیر اخلاقی عمل اسی طرح قائم و دائم رہا تو اس طرح یہ منفی عمل ایک غیرمنصفانہ اور بیمار سوسائٹی کو جنم دے گا۔
دوسری طرف بلوچستان میں پروجیکٹ کے نام پر بلوچوں کا استحصال کیا جا رہا ہے تاکہ ساحل و وسائل کی لوٹ مار سے امیر طبقہ اور بھی اپنی بربریت مضبوطی سے قائم کر سکے۔ ہم ایک ایسی غیرصحت مند اور بیمار سوسائٹی میں رہتے ہیں، جہاں سچ بولنا اور لکھنا غلط قرار دیا گیا ہے اور پھر جھوٹ بولنے کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ جس طرح ہم پہلے دیکھ چکے ہیں سچ بولنے والے اور تلخ حقائق کو سامنے لانے والے لوگوں کا انجام اور جن لوگوں نے حقیقت کو چھپائے رکھا اور جھوٹ کا سہارا لیتے رہے، وہ آج ہماری سوسائٹی میں بڑی عزت کمائے بیٹھے ہیں اور لوگوں کا خون چوسنے میں مصروف ہیں۔
یہ سب ہماری اپنی لاعلمی اور لاشعوری کا نتیجہ ہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب معاشرے کا ہر فرد ظلم و ستم کا پردہ فاش کرنے میں اپنی بھرپور شرکت یقینی بنائے گا۔ خون پینے کے جرم میں ہم مچھروں کو مار ڈالتے ہیں لیکن کئی سالوں سے سرمایہ دار طبقہ ہم انسانوں کا خون چوستا چلا آ رہا ہے پھر بھی ہم نے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ہمارا مقصد ایک صحت مند اور منصفانہ معاشرے کی تشکیل ہے۔ یہ سارے مقاصد تب حاصل کیئے جا سکتے ہیں جب ہمارے معاشرے کا ہر فرد اپنے فرائض سرانجام دیں اور سارے ٹیچرز تعلیمی اداروں میں اپنی ڈیوٹی پر معمور ہوں گے۔
ایک بلوچ اور طالب علم ہونے کے ناطے آئینی دائروں میں رہ کر طلبہ حقوق، اپنے رفیقوں اور اپنے مقصد کی خاطر ہم ہر چیز کر سکتے ہیں۔ ہمیں ہر اس شخص کے خلاف جنگ لڑنا ہے جو تعلیمی اور سماجی ترقی کے راستے میں حائل ہے۔ یہ وہ بلوچ دشمن عناصر ہیں جو پیسے اور دولت کی خاطر تعلیمی اداروں کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں اور لوگوں کو بیچ رہے ہیں تاکہ خود اپنے لیئے نام و نمود یا تحفظ خرید سکیں۔ لیکن اب زیادہ دیر نہیں لگے گا، حقیقت کا سامنے آنے میں۔ جس طرح غیرآئینی طریقے سے بلوچوں کا استحصال کیا جا رہا ہے اور ان پہ ظلم و ستم کیا جا رہا ہے، ساری حقیقتوں کا پردہ فاش ہونے والا ہے۔ ان ساری حقیقتوں کا پردہ فاش کرنے میں، شعوری اور سماجی ترقی کے لیئے بلوچ طلبہ تنظیمیں اپنا بھرپور کردار سرانجام دیتی رہی ہیں۔ حکمرانوں کی طرف سے اکثر بلوچوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ بلوچ خود اپنی ترقی کے مخالف رہے ہیں، حالاںکہ ان باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
حکمران اور سرمایہ دار طبقہ خود حقیقت کو چھپانے کے لیے بلوچوں کو اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں اور نوجوان نسل کو نشے کی طرف گامزن کرنے میں کوشاں ہیں تاکہ تعلیمی نظام تباہ ہو جائے اور پوری قوم بےشعوری کے اندھیروں میں سرگرداں پھرتی رہے۔ ہمیں یہ سب کچھ معلوم ہے اور اس کے اسباب بھی معلوم ہیں لیکن پوری قوم کان میں انگلیاں دیئے بیٹھی ہے اور حقیقت سے لاتعلقی اختیار کی ہوئی ہے۔
یہ سارے مسائل طلبہ تنظیموں کے پلیٹ فورم سے ہی حل کیئے جا سکتے ہیں۔ یہ تب ممکن ہے جب ساری طلبہ تنظیمیں ایک ہی پلیٹ فارم پر صرف بی ایس او کے نام سے طلبہ سیاست کو آگے بڑھائیں اور سارے تلخ حقائق کو مستقل مزاجی کے ساتھ سامنے لانے کی کوشش کریں۔
اگر ہم پورے معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہر طرف لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوششیں نظر آئیں گی، کچھ نہ کچھ کرنے کی گھاتیں ہیں، یہ ان لوگوں کی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر مظلوم عوام کا خون پینے اور آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کی ترکیبیں ہیں۔ ہمارے وطن بلوچستان میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے لیکن پھر بھی زیادہ تر لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور افراط کی دنیا میں نیم فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
بلوچوں پہ ظلم، ساحل و وسائل کی لوٹ مار، مزدور طبقے کا استحصال، تعلیمی اداروں کو تباہی کی طرف لے جانا، طلبہ کو اپنے حقوق اور سیاست سے محروم کرنا ناقابلِ برداشت اور ناقابلِ تلافی ہے۔ بلوچستان کا طالب علم طبقہ ایک ایسے شعوری اور تعلیمی رجحان کی طرف گامزن ہے جسے اب کوئی بھی طاقت روک نہ پائے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔