بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے پریس کلب کے سامنے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3553دن مکمل ہوگئے جبکہ حب سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایک وفد نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ ضیاء لانگو کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے بیان اپنی جگہ درست ہے کہ 80کے قریب لاپتہ افراد رہا کیئے گئے ہیں لیکن جتنے لوگ بازیاب ہوئے ان سے دوگنی تعداد میں لوگ لاپتہ ہوچکے ہیں ۔ مکران، تربت، گوادر ، پسنی، جھاؤ، آواران، مشکے یا خاران سے لوگوں کو اٹھاکر غائب کیا جارہا ہے لہٰذا اس سلسلے کو بھی بند ہونا چاہیئے وگرنہ اگر آپ جتنے افراد کو رہا کرتے ہیں اور اس سے بڑی تعداد میں لوگ لاپتہ کیئے جاتے ہیں جس سے مراد یہی لیا جاسکتا ہے کہ کچھ عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔ ہم وزیراعلیٰ بلوچستان سمیت دیگر حکام سے گزارش کرتے ہیں کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے کیساتھ فوجی آپریشنوں کا سلسلہ بھی بند کیا جائے۔
انہوں نے کہا آج مائیں بہنیں اپنے لاپتہ بچوں کے لیے آنسوں بہاء رہے ہیں اور ان کی درد اور تکلیف کو سمجھتے ہوئے دنیا کے تمام افراد کو ان کے ساتھ ہمدردی کرنی چاہیئے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے جبری گمشدگیوں کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ خواتین، بچے،بوڑھے اور نوجوان کوئٹہ پریس کلب کے سامنے سارا دن بیٹھے رہتے ہیں لیکن ان کی موجودگی کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جبکہ اکثر ان کے پیارے مردہ حالت میں پائے جاتے ہیں کبھی کھبار ایک آدھ کی رہائی ہوتی ہے تاکہ یہ دکھایا جائے کہ ان کی بازیابی کیلئے عمل درآمد کیا جارہا ہے لیکن ان افراد کو لاپتہ اور شہید کرنے میں ملوث افراد کو کوئی سزا نہیں دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا لاپتہ افراد میں سے چند کو رہا کرنا دکھاوا ہے تاکہ دنیا کو باور کرایا جاسکے کہ نتائج حاصل کیئے جارہے ہیں۔ بلوچوں کی طرح پشتونوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے لوگوں کو بھی لاپتہ افراد میں سے ان کا حصہ ملا ہے .
ماما قدیر بلوچ نے کہا ذاکر مجید بلوچ کو 8جون 2009کو مستونگ سے اغواء کیا گیا تھا اور وہ تاحال لاپتہ ہے ۔ لاپتہ افراد کی فہرست طویل ہے ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاپتہ ہے جبکہ ہزاروں افراد کی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔