بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی مظالم میں اضافہ اور تیزی اور شدت میں سختی لائی گئی ہے۔ آج اجتماعی سزا کے طور پر بلوچ خواتین اور بچوں کو بھی حراست کے نام اغوا کرکے نامعلوم خفیہ ٹارچر سیلوں میں رکھا جا رہا ہے۔ اس سے یقیناً یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ بلوچ قومی جہد آزادی پختہ ہو کر سامنے آئی ہے۔ اس سے قابض پاکستان بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر ایسی گھناؤنے حرکات شروع کر چکی ہے۔ ان مظالم کا مقصد بلوچ قوم کو مسلسل خوف کے ماحول میں رکھ کر بلوچستان پر قبضہ کو دوام دیکر یہاں کے وسائل کا لوٹ مار جاری رکھنا ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں مظالم کی مثال موجودہ دور میں شاید ہی کہیں ملتی ہو کیونکہ یہاں ظلم و بربریت میں براہ راست ریاست پاکستان ملوث ہے۔ اسی طرح بلوچ فرزندوں کی کسی بھی کونے میں موجودگی خطرے سے خالی نہیں۔ اگر ہم بلوچستان کا موازنہ شام، عراق اور افغانستان سے کریں تو ان ملکوں میں لوگوں کو زیادہ تر شدت پسند تنظیموں سے خطرہ ہے جو پورے ملک پر قابض نہیں ہوسکتے جبکہ بلوچستان مکمل قبضے میں ہے اور ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔ یہاں سب سے زیادہ اجتماعی قبریں برآمد ہوئی ہیں۔ یہاں ’’مارو اور پھینکو‘‘ اور جعلی مقابلے بھی آزمائے گئے ہیں۔ کئی لاشیں دریاؤں میں بہائی گئیں۔ اب لاشوں کو مسخ کرکے ناقابل شناخت حالت میں ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے ضلع مستونگ میں لاوارثوں کا ایک قبرستان آباد کیا ہے۔ حقیقت میں کوئی لاوارث نہیں سب بلوچ فرزند ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں لاشوں کو لاوارث قرار دینے کے عمل کو دنیا کا کوئی بھی ذی شعور انسان کا دل و دماغ تسلیم نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایک انسانی المیہ اور بحران جنم لے چکا ہے۔ چالیس ہزار بلوچ فرزند حراست کے نام پر لاپتہ کرکے خفیہ اداروں کی خفیہ زندانوں میں رکھے گئے ہیں۔ جن میں کئی بلوچ ایک دہائی کا عرصہ انہی کال کوٹھریوں میں گزار کر چکے ہیں اور ان کے خاندان کو کوئی خبر نہیں کہ ان کے پیارے کس حالت میں ہیں۔ آیا وہ زندہ ہیں بھی یا نہیں۔ اس جارحیت اور ظلم کو بڑھاوا دینے اور جاری رکھنے میں میڈیا نے بھی متوازی کردار ادا کیا ہے۔ میڈیا نے بلوچستان کے بارے میں چپ سادھ رکھی ہے۔ یہ چیز قابض فورسز کو توانا کرکے شہہ دے رہا ہے کیونکہ اس سے دنیا میں بلوچ قوم کی آواز کو روکنے کی کوشش اور جبر کو جاری رکھا گیا ہے۔ ایسے میں انسانی حقوق کے اداروں، اقوام متحدہ اور اس کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنا مشن بھیج کر یہاں ہونے والی جنگی جرائم، انسانی کے خلاف جرائم اور بلوچ نسل کشی کے ثبوت اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور لوگوں کی زبانی سنیں۔