بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں اور مسلسل عورتوں اور بچوں سمیت نوجوانوں کی جبری گمشدگی کا نہ رکنے والا عمل جاری و ساری ہے۔ اس طرح کے عمل سے اور اس عمل کے نتیجے میں اداروں کی خاموشی کی وجہ سے بلوچستان انسانی حقوق کی پامالیوں کا گڑھ بنتا جارہا ہے۔ جہاں ایک ماں، ایک بہن اپنے عزیزوں کے انتظار میں لاچاری اور بے بسی کی تصویر بنے ہوتے ہیں۔ چھ چھ سال اپنے بیٹے اور بھائی کی جدائی کا غم لئے مائیں اس جہاں فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان سے خواتین کی جبری گمشدگی کا انسانی معاملہ ہو یا خواتین ماؤں اور بہنوں کا اپنے عزیزوں کے انتظار میں کرب ناک زندگی گزارنا ایک معمول کا عمل بن چکا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسی طرح میر مہر گل مری جو کہ ایک سرکاری ملازم تھا جو محکمہ ذراعت میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھا انہیں پندرہ اور سولہ ستمبر دو ہزار پندرہ کی درمیانی رات سیکورٹی فورسز نے انکے گھر پر چھاپہ مار کر ماورائے عدالت گرفتار کرکے لاپتہ کردیا۔ ان کی زندہ سلامتی بازیابی کے لئے ان کے اہلخانہ نے اعلی حکام اور اعلی ادارے کے سربراہ کو خطوط لکھے احتجاج کیئے لیکن مہر گل مری کو منظر عام پر نہیں لایا جاسکا۔
آج چار سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن مہر گل مری کی عدم بازیابی ایک معمہ بن چکی ہے اور اسی درد اور سسکیوں کو لیکر اس کی ماں اس دنیا جہاں سے رخصت ہوگئی۔ مہر گل مری کی والدہ بلوچستان کی پہلی عورت نہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے انتظار میں جہاں سے رخصت ہوئی بلکہ اس سے قبل بھی ایسے کئی واقعات رونما ء ہوچکے ہیں۔
لاپتہ سفر بلوچ کی اہلیہ بی بی گنجل بلوچ بھی اپنے شوہر کے انتظار میں اس جہاں سے ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی اور اپنے شوہر کی جدائی کا درد لئے لحد میں اتاری گئی۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا سپریم کورٹ پاکستان، وزیر اعظم پاکستان اور دیگر اعلی اداروں سمیت عالمی اداروں سے بھی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیکر اقدامات اٹھائیں تاکہ بلوچستان میں مائیں اور بہنیں جو کربناک زندگی گزار رہی ہیں ان سے چھٹکارہ پاسکیں۔