بس ایک شکوہ ہے ۔ کمالان دوست

647

بس ایک شکوہ ہے

کمالان دوست

دی بلوچستان پوسٹ

کون ہیں تعلیم کے دشمن؟ کون ہیں معصوم بچوں کے دشمن؟ کیوں ایسا ہوتا ہے ہر روز؟ کیا قصور ہے معصوم بچوں کا؟ کیا یہ سب ٹیچر دہشت گرد ہیں؟ کیا یہ سب ٹیچر بے تعلیم ہیں؟ کیا ٹیچروں کو پڑھانا نہیں آتا ہے؟ کس نے کہا کہ مار پیٹ سے بچہ تعلیم حاصل کر سکے گا؟ دنیا کے کسی کونے میں اگر کسی کو تعلیم دینا یہ کچھ سکھانا ہے تو مار پیٹ کا سہارا نہیں لیا جاتا۔ اگر مارپیٹ سے تعلیم حاصل ہوتا تو پاکستانی جیلوں کے سارے قیدی سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئر، یا کچھ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بن جاتے اور پاکستان کے تعلیم کا تناسب %100 ہوجاتا۔

مگر پاکستان کی تعلیم کا تناسب سب کے سامنے ہے۔ مار پیٹ بھی سب اسکولوں میں باقاعدگی سے ہوجاتا ہے۔ دنیا میں بہت سارے ایسے ملک ہیں جن کی تعلیم کی مثالیں پوری دنیا میں دی جاتی ہیں۔ کیا وہ اپنے بچوں کو مارتے ہیں؟ بچوں کی مارپیٹ دور کی بات ہے، ان کے سامنے کسی قسم کی لڑائی تک نہیں کرتے ہیں۔ بچوں کے سامنے کسی پر چلاتے نہیں، کسی کو گالی نہیں دیتے ہیں، کسی قسم کی کوئی بری بات نہیں کرتے۔ کیونکہ بچوں کے سامنے جو بھی حرکت کرو گے یا ان سے کرو گے۔ وہ بچوں کے ذہن میں بیٹھ جائے گا۔ بچے بڑے ہوکر وہی حرکتیں شروع کردیں گے۔ جیسا کہ ہو رہا ہے، ہمارے معاشرے میں ۔بچے بھی یہ سمجھیں گے کہ ہر مسئلے کا حل مارپیٹ ہی ہے بس۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہر بچے کا ذہن ایک جیسا نہیں ہے، سب بچوں کا ذہن الگ الگ ہے۔ جس طرح دنیا میں سب لوگوں کی شکلیں یعنی چہرہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اسی طرح سب لوگوں کی پسند بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ مگر میرا مقصد یہاں صرف تعلیم کے بارے میں ہے۔ یعنی ہر بچے کا پسندیدہ سبجیکٹ بھی اسی طرح ایک دوسرے سے الگ الگ ہوتا ہے۔ ہمیں یہ کوشش کرنا چاہیئے کہ ہم بچے کو پہچان سکیں کہ اس کو کون سا سبجیکٹ پسند ہے۔ بچوں کو اس کے پسند کے مطابق تعلیم دیں۔ تو پھر آپ کا بچہ کبھی ناکام نہیں ہوگا۔ ضرور وہ اپنے سبجیکٹ میں ماہر سے ماہر تر بن جائے گا۔

قصور کس کا ہے؟ کیونکہ ہم خود پڑھے لکھے نہیں ہے۔ ہمیں پڑھائی کا طریقہ معلوم نہیں ہے۔ دنیا میں بہت سارے ایسے ملک ہیں جہاں پہلی کلاس سے لے کر پانچویں کلاس تک کوئی امتحان نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بچے اگر امتحان میں فیل ہوجائیں تو احساس کمتری کا شکار ہو جائیں گے۔ ان پانچ سالوں کے دورانیئے میں بچے کو صرف دیکھیں گے کہ وہ کیا بننا چاہتا ہے۔ ان کو کن کن چیزوں سے لگاؤ ہے۔ تو بچے کو اسی فیلڈ میں داخل کر لیتے ہیں۔ چاہے اس کا شوق میوزک سے کیوں نہ ہو یا ٹیکنیک سے کیوں نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اسکول کے سبجیکٹ کو بھی ڈھونڈ لیتے ہیں کہ اسے کونسا سبجیکٹ پسند ہے۔ اور یہ بچے بڑے ہوکر ایسی ایسی چیزیں بناتے ہیں کہ اس کی مثال آپ کے سامنے ہے۔

بچوں سے سب پیار کرتے ہیں مگر پیار کرنا نہیں آتا۔ مثال کے طور پر جب پہلا بچہ پیدا ہوتا ہے تو بہت ساری چیزیں اس کو دیئے جاتے ہیں کھلونے وغیرہ۔ جب دوسرا بچہ پیدا ہوتا ہے تو دفعہ 144 کے تحت یکدم سے اس بچے پر ہر قسم کی کھیل کود پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ اور بچہ بھی کچھ عجیب حرکتیں کرنے لگ جاتا ہے۔ مار پیٹ کا سلسلہ یہاں سے شروع ہو جاتا ہے، ہر قسم کی مارپیٹ کا تجربہ اس لاڈ پیار والے بچے سے کیا جاتا ہے۔ خیر بچہ اسکول تک پہنچتے پہنچتے مارپیٹ کا عادی بن جاتا ہے۔

اس لیئے اس کو اسکول کے چھوٹے موٹے مار پیٹ کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اور جب اسکول میں مارپیٹ کا سلسلہ شروع ہوگا تو بچے کا بہترین سبجیکٹ جھوٹ ہوگا۔ اگر ایک دن بچے کو سبق یاد نہیں ہوا، تو گھر سے سکول تک سبق یاد نہیں کرے گا۔ وہ جھوٹ یاد کرے گا کون سا جھوٹ بولوں، جھوٹ تو سارے اسکول میں آزما چکے ہیں پہلے سے۔ جب بچےنے پہلی مرتبہ جھوٹ بولنا شروع کرلیا تو وہ ہمیشہ جھوٹ بولتا ہی رہے گا۔ اور ایک دن آئے گا ایک بڑا جھوٹا بنے گا۔ آپ اپنے آس پاس ایک نظر دیکھ لیں، جن جن لوگوں کو آپ پہچانتے ہیں، ان سے آپ کا رابطہ ہے۔ اگر ان میں سے ایک سچا آدمی ملا تو مجھے بتائیں میں اس کو سجدہ کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ ضرور کوئی بزرگ ہوگا، کوئی عام آدمی کا کام نہیں آج کل کے دور میں۔

آخر میں ایک سوال آپ سب سے پوچھنا چاہوں گا، کیا آپ نے جس اسکول سے پڑھا آپ کا کوئی کلاس فیلو ہمیشہ مار کھاتا تھا؟ آج وہ کہاں ہیں؟ کیا وہ کوئی بڑا سائنس دان ہے؟ کیا وہ کوئی ڈاکٹر ہے؟ کیا وہ کوئی انجنیئر ہے؟ کیا وہ کوئی سرکاری افسر ہے؟ سرکاری افسر ہو سکتا ہے، مگر رشوت والا نہیں پوچھ رہا ہوں۔

اگر آپ سب کا جواب نہیں ہے تو پھر یہ خود ایک زندہ مثال ہے کہ مارپیٹ سے ہم کسی کو زبردستی تعلیم نہیں دے سکتے۔ ہاں مگر پیار کی زبان جانور بھی سمجھ سکتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔