براس سے خوفزدہ دشمن – سامری بلوچ

426

براس سے خوفزدہ دشمن

سامری بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کئی سالوں بلکہ صدیوں سے بلوچ قوم کی خواہش تھی کہ بلوچستان کی قومی آزادی کی جنگ میں سب سے بڑی بلوچ مسلح مزاحمتی تنظیمیں بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان لبریشن آرمی ایک ہی محاذ پر دشمن کا مقابلہ کریں، جن کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کیلئے دشمن نے اپنی پوری جتن کی، اپنے سارے حربے و ہتھکنڈے استعمال کئے، جس کی وجہ سے کچھ وقتوں کیلئے دشمن اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوا، جب کچھ چھوٹے مسئلوں پر بلوچ مزاحمت کی علامت بی ایل ایف اور بی ایل اِے کے درمیان کچھ اختلافات نے جنم لیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اور کچھ دوستوں کی محنت جتن اور لگن و کوششوں کی وجہ سے آپس کے اختلافات میں کمی آئی۔ اختلافات میں کمی لانے میں شہید سنگت نثار جان، بارگ جان، شہید ضیاء الرحمان جیسے بلوچ دھرتی کے عظیم سپوتوں نے بڑا کردار ادا کیا۔ اس کے کچھ وقت بعد جب بلوچ لیڈروں کو احساس ہوا کہ اتحاد و یکجاہی اب وقت کی ضرورت بن چُکی ہے تو بی ایل اے کے کمانڈر شہید جنرل اسلم اور بی ایل ایف کے دوستوں نے اپنے درمیان کے سارے اختلافات مل بیٹھ کر حل کیئے، بی ایل ایف اور بی ایل اِے کی درمیان اختلافات کا ختم ہونا اور ایک دوسرے کا بازو بننا دشمن کیلئے خود تباہی کا سماں تھا، بی ایل ایف اور بی ایل اے جو بلوچستان میں مزاحمت کی جڑ مانے جاتے ہیں، ان کے آپسی اختلافات کا ختم ہونا اور ایک دوسرے کا ساتھ یکجاہ ہونا تحریک کیلئے نیک شگون تھا۔ جب ان کے درمیان اختلافات ختم ہوئے تو بلوچ قوم و آزادی پسند دوستوں کی خواہش تھی کہ اب وقت آ چُکا ہے کہ ایک قومی فوج تشکیل دیا جائے، جو بلوچستان میں دشمن کی تباہی کا سبب بنیں، دشمن کو بلوچستان سے نکال دیں۔

ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، بلوچ قوم کے خواہشات کی تکمیل کیلئے شہید جنرل اسلم بلوچ اور دیگر بی ایل اے و بی ایل ایف کی لیڈرشپ نے دیگر تنظیموں کے ساتھ رابطہ بحال کیا اور بلوچ مزاحمتی تنظیم بلوچ رپبیلکن گارڈ نے بھی اس مضبوط اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور بلوچ راجی آجوئی سنگر کا قیام ہوا، براس یعنی کہ بلوچ راجی آجوئی سنگر کی معنی و مفہوم کچھ اسطرح ہے کہ براس ایک بلوچی لفظ ہے، رخشانی لہجے میں براس ہوتا ہے جبکہ مکران کے کچھ علاقوں میں اس لفظ کو برات کہا جاتا ہے اردو میں براس کو بھائی کہا جاتا ہے۔ ب سے بلوچ ر سے راجی آ سے آجوئی اور س سے سنگر ہوتا ہے۔ بلوچ راجی آجوئی سنگر کو ہم اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ بلوچ قومی آزادی کا سنگر اور سنگر کی لغوی معنی تو مورچہ ہے لیکن بلوچی میں اس کا معنی یکجائی بھی ہوتا ہے یعنی اتحاد یعنی براس کا اگر ہم معنی و مفہوم بیان کریں تو براس کا معنی خود یکجائی و اتحاد ہے۔

براس کے قیام نے دشمن کو تو تکلیف میں ڈالا تھا لیکن تگران میں جب براس کا پہلا کارروائی عمل میں آ گیا تو دشمن کی نیندیں اڑ گئے، دشمن اس اتحاد کو ایک روایتی اتحاد سمجھ رہا تھا لیکن دشمن کے سوچ کے برعکس بلوچ راجی آجوئی سنگر بلوچ قومی فوج کی شکل میں آ گیا، براس نے اپنے پہلے حملے کے بعد اس کو قومی فوج بنانے کی خواہش ظاہر کی اس کے بعد پوری قوم نے براس کا دل کے اتھا گہرائیوں سے ویلکم کیا اور بلوچ نوجوانوں سیاسی کارکنان سمیت عام بلوچوں کے زبان پر اب براس کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا، اب ہر دیوان میں براس کا ذکر ہی ہے، سیاسی، ادبی اور عام مجالس میں براس موضوع گفتگو ہے۔ براس اب دشمن کیلئے ایک خطرہ بن چُکا ہے ڈان کے نیوز چینل کے شام کے پروگرام ذرا ہٹ کے پروگرام میں پاکستانی صحافی بھی اسی بات پہ خوفزدہ نظر آ رہے تھے کہ ان کا اتحاد ہی سب سے بڑا خطرہ ہے پاکستان کیلئے بقول ان کے پہلے ان کے درمیان چھوٹے چھوٹے جھگڑے ہوتے رہے ہیں لیکن اب وہ اتحاد کی شکل میں یکجاہ ہوئے ہیں اب یہ ہمارے لیے مزید خطرے کی بات ہے ان کی باتوں سے یہی لگتا ہے کہ دشمن بھی بلوچ کی اتحاد سے اپنے لیے خطرہ محسوس کر رہا ہے۔

بلوچ قوم پرامید ہے کہ براس پاکستان کی بربادی اور بلوچستان کی آزادی کا راستہ ہے براس ہی میں بلوچ قوم کی نجات ممکن ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔