ایران اور پاکستان نے سرحدی علاقوں میں شدت پسندی کی روک تھام کے لیے ایک مشترکہ سریع الحرکت ردعمل سکیورٹی فورس بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کا اعلان پیر کو تہران میں ایران کے صدر حسن روحانی نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔
صدر حسن روحانی نے کہا وزیر اعظم عمران خان اور انھوں نے سریع الحرکت مشترکہ سرحدی ردعمل فورس بنانے پر اتفاق کرلیا ہے۔
یاد رہے کہ سرحدوں کے دونوں طرف سے کئی ماہ سے ہونے والے شدت پسندی کے واقعات سے دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
ایران کے جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان میں ایرانی سکیورٹی فورسز پر متعدد حملے ہو چکے ہیں۔
وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد عمران خان کا ایران کا یہ پہلا سرکاری دورہ ہے جس سے صرف چند دن قبل پاکستان کے زیر انتظام بلوچستان میں اورماڑہ کی ساحلی شاہراہ پر شدت پسندوں نے ایک مسافر بس میں سوار چودہ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملے میں چن چن کر ہلاک کیے جانے والوں میں دس پاکستانی بحریہ کے اہلکار تھے۔ اس واقع کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس واردات میں ملوث ’دہشت گردوں کی کمیں گاہیں ایران میں ہیں۔‘
عمران خان نے ایرانی صدر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ سکیورٹی کے سربراہ اپنے ایرانی ہم منصب سے ملیں گے اور اس سلسلے میں تفصیلات طے کریں گے۔
عمران خان نے کہا کہ ‘ہمیں یقین ہے کہ دونوں ملکوں کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ ہم اپنی سرزمین سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔’
گذشتہ ماہ مارچ میں ایرانی صدر نے پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایران کے صوبے سیستان میں پاسداران انقلاب پر فروری کی تیرہ تاریخ کو ہونے والے حملے کے ذمہ داران کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے۔ پاسداران انقلاب کی پریڈ پر ہونے والے اس حملے میں 27 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ایران نے دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے میں ملوث خود کش حملہ آور کا تعلق پاکستان سے تھا اور اس حملے کی ذمہ داری ایک سنی تنظیم جیش و عدل نے قبول کی تھی جو مبینہ طور پر پاکستان کے صوبے بلوچستان سے اپنی سرگرمیاں منظم کرتی ہے۔
پاکستان نے اورماڑہ کے حملے کے بعد کہا تھا کہ وہ تنظیمیں جو بلوچستان میں کاروائی کر رہی ہیں ان کے تربیتی مراکز اور رسد گاہیں پاکستان کے صوبے بلوچستان سے متصل ایران کے سرحدی علاقے میں قائم ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم نے کہا کہ ان کے ایران کے دو روزہ سرکاری دورے کا بنیادی مقصد سرحد کے آر پار ہونے والی دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں کا مستقل حل تلاش کرنا ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ ‘سب سے زیادہ اہم وجہ میری یہاں موجودگی کی صدر صاحب یہ ہے کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ دہشت گردی کا مسئلہ مشکلات کا باعث بن رہا تھا۔ میرے لیے یہ بہت ضروری تھا کہ میں اپنے سکیورٹی سربراہ کے ساتھ یہاں آؤں تاکہ یہ مسئلہ حل ہو سکے۔’