ضلع آواران کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن کے دوران خواتین و بچوں سمیت دیگر افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے پیراندر زیلگ اور ڈھل بیدی سے پاکستانی فورسز نے دوران آپریشن 3 خواتین اور 4 بچوں سمیت 11 افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پے منتقل کردیا۔
تفصیلات کے مطابق آواران کے علاقے پیراندر زیلگ سے پاکستانی فورسز نے سن رسیدہ عبدالحئی اور اس کی بیٹی شہناز اور اس کی ایک سال کے بیٹے فرہاد اور بیٹی صنم ایک اور خاتوں نازل اور اس کے دس سالہ بیٹے اعجاز اور نومولود بچی ماہ دیم کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پہ منتقل کیا ہے۔
دریں اثنا آواران کے علاقے ڈھل بیدی میں پاکستانی فورسز نے ایک گھر پر چھاپہ مارکر 2 افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
مذکورہ افراد کی شناخت ڈاکٹر نذیر ولد عیسیٰ اور شبیر ولد غلام جان کے ناموں سے ہوگئی ہے۔
آواران آپریشن کے حوالے سے بلوچ سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے مذمت کی گئی ہے۔ بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر واقعے کے رد عمل میں کہا ہے کہ پاکستانی آرمی بلوچستان میں جنگی جرائم اور انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔
بی ایچ آر او کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں کی خاموشی ریاستی جبر کو حوصلہ بخشنے کا باعث بن رہی ہے۔
Pakistan army is involved in war crimes & crimes against humanity in Balochistan with impunity. The silence of the international institutions for the safety of human beings including @UN are encouraging them to commit more atrocities. https://t.co/KO6qKq9Gn8
— Baloch Human Rights Organization (@BHROrganization) April 21, 2019
بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی اداروں کی طرف سے عدم توجہی کے باعث بلوچستان اجتماعی جبر وسعت پارہی ہے۔
Abductees include Shahnáz, her one year old son Farhad, Sanam d/o Elahi Bux, her son Mallen and an infant baby girl Mahdem & five years old Mallen with his mother Nazal and Shahnaz’s father Abdul Hayee. We demand @UN must force #PakistanArmy to immediately release the abductees. pic.twitter.com/l9Kl0JHgIQ
— BNM (@BNMovement_) April 21, 2019
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کرگیا ہے جہاں ایک جانب سے لاپتہ افراد کے لواحقین کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کررہے ہیں تو دوسری طرف صوبائی حکومت میں شامل پارٹیاں بھی لاپتہ افراد کے حوالے سے پیش رفت کے حوالے مطمئن دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے اپنے ایک بیان میں اس حوالے سے کہا تھا کہ بلوچستان سے 313 مسنگ پرسنگ بازیاب ہوئے ہیں تو اسی دوران 425 افراد غائب ہوگئے ہیں۔ جب تک بلوچستان کے ہر گھر سے خواتین کی چیخ و پکار ختم نہیں ہوگی تب تک میں مسنگ پرسن کے متعلق میں مطمئن نہیں ہوں۔