امیدیں تو بہت تھیں! لیکن؟ – دوسری قسط – احمد خان زہری

500

امیدیں تو بہت تھیں! لیکن؟

دوسری قسط

تحریر: احمد خان زہری

دی بلوچستان پوسٹ

پہلا قسط

ایک طرف اسی دور میں جب نوابیت کے جنون میں امان اللہ خان غالب آچکا تھا تو دوسری طرف اس کے بیٹے نواب نوروز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کافی جگہ پر بی ایس او (آزاد) کے سرکلز میں دکھائی دیئے، ہم بےشعور و کم عقل لوگوں نے پھر بھی یہ سمجھا کہ شاید نوروز خان کی نسل سے کسی نے تو بلوچستان و بلوچ قومی جہد کے لیئے اپنے سینے میں درد رکھتا ہے، اپنے مظلوم و لاچار بلوچ بھائیوں کو دشمن کی جکڑی ہوئی زنجیروں سے نکالنے کی خواہش رکھتا ہے- لیکن ہم اس بات سے آشنا نہیں تھے کہ بھیڑیئے کے اولاد تو بھیڑیئے سے دو قدم آگے گذر جائیں گے- شہزاد جوکہ امان اللہ کا بیٹا اور بابو نوروز خان کا نواسہ ہے خود اپنی ذاتی نوابیت کی حکومت بنانے کی کوشش کرنے لگا- آئے روز کسی غریب کو بازار کے اندر اپنے غنڈوں سے پٹوانا، کسی مظلوم کی راہ روک کر اس سے پوچھ گچھ کرنا کہ تم کہاں جارہے ہو، کیوں جارہے ہو اور یہاں کرنے کیا آئے ہو؟ وغیرہ وغیرہ-

اب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ شہزاد کے گاڑی کے سوچ بورڈ پر پاکستان کا جھنڈا رکھا ہوا نظر آتا ہے، شہزاد کے بھتیجے بیبرگ کے فیس بک پروفائل پر 14 اگست اور 23 مارچ کے مونوگرام اپلوڈ کیئے جاتے ہیں، جس پر پاکستانی ہونے کا فخر کیا جاتا ہے –

کیا شہزاد خان وہ وقت بھول گیا کہ ریاست نے اُسے دو گارڈز سمیت کوئٹہ سے گھسیٹ گھسیٹ کر گاڑی میں ڈال دیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا، جہاں شہزاد اور اس کے گارڈز کو انسانیت سوز اذیتیں دی گئیں- شہزاد کو اسی بی ایس او (آزاد) کے سرکلز کو جوائن کرنے اور زہری میں مختلف جگہ وال چاکنگ کرنے کی جرم میں ملوث ہونے کی وجہ سے اغواء کرکے ذلیل کیا گیا- آج اسی دشمن کے گندے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ریاست کا اعلیٰ کار بن کے اپنے بلوچ قوم سے غداری و دشمنی کر رہا ہے –

یہاں افسوس کی نہیں شرم کی بات ہے، یہاں دکھ کی نہیں لغوری و بزدلی کی بات ہے۔ ایسے برے اور گندے اعمال سے کبھی بھی محسوس نہیں ہوتا کہ امان اللہ خان، شہزاد اور بیبرگ سے نواب نوروز خان کا تعلق کسی جنم میں رہا ہے۔

آخر یہ آفت و مصیبت کس نے ڈھالی کہ نواب نوروز کا خاندان ایسے گندے جرائم کا مرتکب ہوتا جا رہا ہے؟ آخر یہ بزدلی و بے ضمیری کس نے پاک خون میں رنگ دیا کہ ناپاک ریاست کی مدد کے لیئے بابو نوروز خان کے خاندان نے حامی بھرلی؟

وجوہات شاید کچھ یہ تھیں کہ 2009 میں جب زیب زرکزئی جوکہ ثناءاللہ زرکزئی کا بھتیجا تھا نے ذاتی مسئلے میں سرعام زہری بازار میں امان اللہ خان کے بیٹے ایس ایچ او ریاض زرکزئی کو بے دردی سے گولیاں مار کر قتل کردیا- جِسے امان اللہ خان جیو نیوز کے کیپیٹل ٹاک میں شہدائے بلوچستان کے لسٹ میں شمار کرنا چاہا لیکن عوام اس بات سے پہلے بخوبی واقف تھے- شاید یہ قتل بھی امان اللہ خان کے اپنے کالے کرتوتوں کا انجام تھا کیونکہ (اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے) اور یہ وہ آگ تھی، جو زہری قبائل میں پھیلا کر خود امان اللہ خان سکون کی نیند سو رہا تھا، لیکن اُس وقت اُسی آگ کے شعلے امان اللہ خان کے بنگلے میں بھڑک اٹھے۔ کیونکہ وہ کہتے نہیں کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے، ہر فرعون کے اوپر ایک موسیٰ مسلط ضرور ہوتا ہے۔

اب قبائلی جنگ دو ظالم گروہوں کے درمیان چھڑ گئی تھی، ایک طرف امان اللہ و دودا خان اور دوسری طرف ثناءاللہ و زیب زرکزئی- لیکن پھر بھی ان کے کالے کرتوتوں کے بھینٹ چڑھ گئے نہتے زہری قبائل کے بے سہارا لوگ- امان اللہ و دودا خان کسی کو ثناءاللہ کا بندہ کہہ کر گاڑیوں سے اتار کر مقتول کے بیوی بچوں کے سامنے قتل کردیتے، کسی کو ثناءاللہ و زیب کا دستِ راست ظاہر کرکے اغواء کیا جاتا تھا- دوسری طرف ثناءاللہ و زیب زرکزئی کے بھی ایسے ہی کچھ برے اعمال سامنے آنے لگے- نوابوں و سرداروں کی جنگ میں نقصان عام غریب عوام کا ہوا، نواب و سرداریت کے جنگ میں بھینٹ چڑھ گئے معصوم، بے بس اور بے سہارا لوگ۔

الیکشن 2013 کے سلسلے میں جب ثناء اللہ زرکزئی ووٹ کی بھیک مانگنے زہری آرہا تھا تو راستے میں بلوچ مسلح تنظیم بی ایل اے کے ایک دھماکے کے نتیجے میں ثناءاللہ زرکزئی کا بیٹا سکندر، بھتیجا زیب اور بھائی مہراللہ مارے گئے اور ان کے چیتھڑے آسمان تک جا پہنچے، جن کو کفن و دفن تک نصیب نہیں ہوئی۔

حملے کے دوسرے روز ثناءاللہ زرکزئی نے اپنے بھتیجے دودا خان زرکزئی کو اپنے رہائش گاہ سے اغواء کرواکر شاید مار ہی دیا اور تقریباً ایک سال بعد انور زرکزئی کے بیٹوں کو گھٹ میں ایف سی کی مدد سے چھاپہ لگوا کر اغواء کروایا-

امان اللہ خان اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ اب تیسری باری میرا یا میرے بیٹوں کی ہے تو اس بھیانک انجام سے بچنے کے لیے بھاگ کر جھل مگسی گاجان میں رہائش اختیار کرلیا تاکہ اب اس بھیڑیئے سے بچا جاسکے، جس کے ہاتھ پاؤں تو بی ایل اے نے کاٹ دیئے، اور اب یہ مجھے معاف کرنے والا نہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔