امیدیں تو بہت تھیں! لیکن؟ – آخری قسط – احمد خان زہری

342

امیدیں تو بہت تھیں! لیکن؟

تیسری اور آخری قسط

تحریر : احمد خان زہری

دوسری قسط

اِن سارے واقعات کے بعد زہری قبائل پر کچھ اللہ کی رحم ہوئی اور ثناءاللہ و امان اللہ جیسے بھیڑیوں سے چھٹکارا حاصل ہوا کیونکہ اب وہ دونوں انتقام کی آگ میں جلنے میں مصروف عمل ہوگئے۔

مظلوموں کے گھروں میں گھس کر، لوگوں کو گاڑیوں سے اتار کر موت کے گھاٹ اتارنے، بے سہارا لوگوں کو بے گواہ کرنے کے انجام نے ثناءاللہ و امان اللہ کو احساس دلایا تھا کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے لیکن وہ عبرت حاصل کرنے والے نہیں، انہوں نے پھر بھی اپنی نوابی حکومت لوگوں پر مسلط کرنے میں تیزی لائی- اب اس میں ریاست کی تشکیل کردہ پلان کے تحت نوابیت کو اجاگر کرنے میں امان اللہ خان آگے بڑھنے لگا-

2013 کی بات ہے کہ ثناءاللہ کے ساتھ بلوچ فرزندوں نے بلوچ قومی دشمنی کا بدلہ ایسے ہمت و بہادری سے لیا کہ نسل در نسل زرکزئی قبیلہ یاد رکھیگی- اسی واقعے کے بعد امان اللہ خان بھاگ کر گاجان میں روپوش ہوگیا لیکن ثناءاللہ سمجھ رہا تھا کہ امان اللہ خان نے انتقامی کاروائی کی جو میرے ساتھ زہری کے میدان میں یہ واقعہ پیش آیا- ثناءاللہ ریاست کے زور پر مختلف علاقوں میں امان اللہ کے رہائش گاہوں پر چھاپہ لگوا کر چادر اور چادردیواری کی حرمت کو پاؤں تلے روند ڈالا- ریاست کی آڑ میں اُس کے بیٹوں پر کئی بار قاتلانہ حملہ کروائے-

سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ زرکزئی قبیلہ اپنے ننگ و ناموس کی پرواہ نہیں کرتا، تو وہ خاک ہماری رہنمائی و رہبری کرکے ہمیں ترقی کی طرف لے جائیں گے، بلکہ ان کا مشن یہی ہے کہ علاقہ مکین ہمارے غلام بن کر جانوروں جیسی زندگی بسر کریں- لیکن اب یہ کہانی بھی آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے کیونکہ بلوچ غیرت مند فرزند حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوگئے ہیں کہ ہمارا اصل قبلہ کس طرف ہے –

2018 میں جب ریاست نے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ثناءاللہ کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا تو امان اللہ خان نے مزید انتقام لینے کے لیے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست کو جوائن کرکے بلوچ دشمنی میں پیش پیش ہونے لگا-

ریاست کے قبضے کو مزید تقویت دینے کے لیے امان اللہ خان نے آئی ایس آئی کے مدد کی حامی بھر لی اور 2018 ہی کے چھٹے مہینے میں فوج کی جانب سے بیس سے تیس گاڑیوں کی سکیورٹی گارڈز نے اُنہیں اپنے آبائی علاقے زہری میں پہنچا دیا – ساتھ ساتھ یہ بھی ہدایت کی گئی کہ اب ہمارے اشاروں پر ناچنے کے لیے چوڑیاں اور پازیب پہن کر حکم کی تعمیل کرنی ہوگی، ہدایت کے بعد قتل و غارت، نوابیت کا راج اور ہر برے اعمال میں مرتکب ہونے کی اجازت دی گئی۔

افسوس تو یہ ہوتا ہے کہ کل تک بابو نوروز خان یہی دشمن (ناپاک ریاست) کے قید میں شہید ہوکر غلامی کو قبول کرنے سے انکاری ہوتا ہے اور آج بدکردار، بد اعمال و بد مزاج فرزند امان اللہ خان کے ذریعے ناپاک ریاست کا جھنڈا بابو نوروز خان کے رہائش گاہ پر فخر سے لہرایا جاتا ہے۔

امان اللہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ ریاست نے جس طرح ثناءاللہ کو استعمال کرکے مونچھیں منڈوانے کے بدلے میں وزیری عطا کی اُسی طرح تمہیں اور تمھارے بیٹوں کو بلوچ دشمنی میں آگے لاکر استعمال کرکے، کسی دن پھینک دیگا- اُس دن یہی زہری قبائل تمھیں پہچاننے سے انکار کرینگے اور تم دھوبی کے کتے کی طرح نہ گھر کے رہوگے نہ گھاٹ کے- سبق حاصل کرنے کے لیئے سردار جمشید خان ڈائیاں و سردار اسد خان جتک کی مثالیں تمھارے سامنے ہیں کہ آج ان کو اپنے فیملی کے علاوہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہے –

اب بھی وقت ہے اپنے آپ کو اور اپنے فرزندوں کو بلوچ قومی دشمنی سے روک لیں نہیں تو انجام ثناءاللہ خان جیسا ہوگا جو آج انجیرہ میں رہ نہیں سکتا-

بلوچ غیرت مند فرزندوں کی مثالیں اُن خانہ بدوشوں کی طرح ہیں، جن کو زلزلوں کا کوئی خوف نہیں ہوتا کیونکہ اُن کے آشیانے زمین پر نہیں اُن کے کندھوں پر ہوتی ہیں

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔