برطانوی پولیس افسران کی ٹیم متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کی نفرت انگیز تقریر کی تحقیقات کے سلسلے میں اسلام آباد پہنچی ہے۔
سکیورٹی حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ الطاف حسین کی 22 اگست کی نفرت انگیر تقریر کے حوالے سے پیش رفت سامنے آئی ہے اور برطانوی محکمہ انسداد دہشت گردی اور کمانڈ میٹرو پولیٹن پولیس کی ٹیم پاکستان پہنچی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ برطانوی تحقیقاتی ٹیم کو اس کیس سے متعلق چھ گواہان اور عینی شاہدین کے بیانات قلم بند کروائے جائیں گے۔
برطانوی پولیس کے دورے کا مقصد اس بات کا تعین کرنا ہے کہ کیا بانی ایم کیو ایم کی 22 اگست کی تقریر نفرت پر مبنی تھی یا نہیں۔
خیال رہے کہ 22 اگست 2016ء کو الطاف حسین کی جانب سے کراچی میں اپنی جماعت کے کارکنان سے ایک ٹیلی فونک خطاب میں پاکستان کے خلاف نعرے لگوائے گئے تھے۔ پاکستان کی حکومت نے اس تقریر کو نفرت انگیر قرار دیتے ہوئے ایک ریفرنس برطانوی حکومت کو بجھوایا تھا اور لندن میں مقیم الطاف حیسن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
اس ضمن میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے مقدمے سے متعلقہ گواہوں اور تفتیشی افسران کو کراچی سے اسلام آباد بلوا لیا ہے اور پیر سے برطانوی ٹیم بیانات ریکارڈ کرنا شروع کرے گی۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق الطاف حسین کے خلاف مقدمات کے تفتیشی افسر نے کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ برطانوی پولیس ایم کیو ایم کے بانی کیخلاف شواہد اکٹھے کر رہی ہے اور یہ کہ ان مقدمات کا عدالتی ریکارڈ اور تفصیلات درکار ہیں۔
سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی کا ماننا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم کا اسلام آباد آنا اہم پیش رفت ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل برطانیہ نے پاکستان کی شکایت پر الطاف حسین کے خلاف کبھی بھی ٹھوس اقدامت نہیں کئے اور نہ ہی کی جانے والی اپنی تحقیقات کو عام کیا گیا۔
تسنیم نورانی کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیکورٹی حکام کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ بانی ایم کیو ایم کی تقریر برطانوی قوانین کی خلاف ورزی ہے جو کہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر برطانوی ٹیم الطاف حسین کی تقریر کو قوانین کے خلاف قرار دیتی ہے تو انہیں اپنی شہریت کھونا پڑ سکتی ہے اور اُنہیں پاکستان کے حوالے بھی کیا جا سکتا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سینٹر میاں عتیق کہتے ہیں کہ اس قسم کے بیانات ماضی میں متعدد سیاسی رہنما دیتے آئے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ برطانیہ پاکستان کے موجودہ اور سابق حکمرانوں کی خواہش پر الطاف حسین کے خلاف کاروائی نہیں کرے گا۔
میاں عتیق کے مطابق اس مقدمہ میں جو گواہان پیش کئے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق پولیس سے ہے اور یہ کہ حکومت کافی عرصہ سے کوشش کر رہی ہے کہ الطاف حسین کو پاکستان لایا جا سکے۔
یاد رہے کہ ایم کیو ایم کے پاکستان میں موجود رہنماؤں نے 22 اگست کی اپنے پارٹی قائد کی تقریر سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔
پاکسانی سیکورٹی حکام کے مطابق الطاف حسین کی تقریر اور اپنی جماعت کے لوگوں کو تشدد اور بدامنی پر اکسانے کے شواہد بھی برطانوی حکام کو فراہم کئے جائیں گے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد نے نہ صرف برطانوی بلکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ لہذا اس قانونی کاروائی کے نتیجے میں ان کی برطانوی شہریت ختم کر کے پاکستان کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔