فغانستان میں شدت پسندوں کے حملوں میں 7 پولیس اہلکاروں سمیت 10 افراد ہلاک ہوگئے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے پی’ کے مطابق صوبہ غزنی کے پولیس سربراہ کے ترجمان احمد خان سیرت نے کہا کہ صوبے کے مشرقی حصے میں طالبان کے سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملوں کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار ہلاک اور 7 زخمی ہوئے۔
طالبان نے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔
شمالی صوبے سرپُل کے حکام کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی چیک پوسٹ پر طالبان کے حملے میں 4 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔
صوبائی کونسل کے سربراہ محمد نور رحمانی نے کہا کہ صوبے کے دارالحکومت کے نواحی علاقے میں حملے میں 5 پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
مشرقی صوبے ننگرہار کے گورنر کے ترجمان عطااللہ خوغیانی کا کہنا تھا کہ دو بم دھماکوں میں 3 شہری ہلاک ہوئے۔
سرپل اور ننگرہار میں حملوں کی ذمہ داری ابتدائی طور پر کسی دہشت گرد گروپ نے قبول نہیں کی۔
واضح رہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا سے متعلق واشنگٹن کے نمائندے زلمے خلیل زاد سے مذاکرات کے باوجود ملک بھر میں طالبان کے حملے جاری ہیں۔
رواں ہفتے دورہ کابل کے دوران زلمے خلیل زاد نے طالبان اور معروف افغان شخصیات، حکومتی نمائندوں اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان ‘انٹرا افغان مذاکرات’ کی کوشش کی تھی۔
زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان چند ماہ کے دوران مذاکرات کے کئی مراحل ہوچکے ہیں جن میں فریقین کے مطابق اہم پیشرفت ہوئی ہے۔
تاہم ان مذاکرات کے باوجود طالبان کی جانب سے افغان فورسز پر حملے جاری ہیں۔
شدت پسند، جن کے کنٹرول میں نصف ملک ہے، افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کرنے سے انکار کرتے آئے ہیں اور وہ موجودہ افغان حکومت کو امریکا کی کٹھ پتلی کہتے ہیں۔