اداروں کی اہمیت و ضرورت
سلمان حمل
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ دو دہائیوں سے جاری بلوچ قومی تحریک کے نشیب و فراز کو دیکھ کر جب ایک لمحے سوچنے کو ملتا ہے، تو بیٹھ کر سوچتا ہوں کہ ان دو دہائیوں میں ہم نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہےـ ہزاروں کی قربانیاں، شہادتیں، دربدری کی زندگی، گھروں کی اجاڑ، بستیوں کی تباہی کے علاوہ اپنے وہ اوقات جو تحریک سے جڑے ہیں ـ کیا میں نے اور ساتھیوں نے اس بابت کوئی غور و فکر کی ہے؟ ہم نے اداروں کی مضبوطی کیلئے کیا کردار ادا کیا ہے اور کیا کردار ادا کررہے ہیں ـ اور اداروں کی مضبوطی کیلئے کوشاں ہیں بھی یا نہیں؟ یا اپنے سرکلز میں بیٹھے ساتھیوں کو ذہنی طور پر آمادہ کیا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں ذات اور شخصیات کی نفی کرنے کیلئے آمادہ بھی ہیں یا نہیں؟ آیا ہم نے کبھی یہ جاننے کی سعی کی ہے کہ ادارے ہوتے کیاں ہیں؟ اکثر ہمارے ہاں صرف ناموں کو من و عن ادارہ تصور کیا جاتا ہے، مگر ادارتی ساخت اور ضروریات کو پورا کرنے یا انہیں زیر بحث لانے سے گریز کرتے ہیں، کیوں ہم اس طرح گریزاں ہیں کہ خود کی پہچان سے بھی ڈرتے ہیں، یہی ادارے ہی تو ہمارے پہچان ہیں اور ادارے ہونگے تو ہم ہونگے کیونکہ ہم جس مقصد کیلئے مر رہے ہیں، قربان ہورہے ہیں، وہ مقصد بغیر اداروں کے حاصل نہیں کیئے جاتے ہیں بلکہ یہی ادارے ہمارے مقصد کو حاصل کرنے کے ذرائع ہیں اور ہمیں اپنے ذرائع مضبوط کرنے ہونگےـ ہمیں خواب خرگوش سے بیدار ہونا ہوگا اور جاننا ہوگا کہ دنیا میں زندگی گذارنے کے لیئے کوئی بھی شخص اکیلا وُہ سب کام کرنے کی قدرت نہیں رکھتا کہ جو اُس کی سب ضرورتوں کو پورا کر سکے۔ لہذا ہر انسان کو دوسرے انسانوں، سے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص یا متعدد اشخاص کے ساتھ مل کر کسی خاص غرض اور مقصد(objective, purpose) کے حصول کے لیے کام کرتا ہے تو اِن متعدد اشخاص کے آپس میں مِل کر اکٹھا کام کرنے کو حرفِ عام میں جماعت، انجمن، پارٹی یا گروپ کہتے ہیں۔
ہر ایسی جماعت(Group) کے لیے آسانی اور سہولت سے اپنا مقصد اور نصب العین حاصل کرنے کے لیے ایک پر سکون ماحول(conducive environment) کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کا برقرار اور قائم رکھنا جماعت کے ہر شخص کے لیے لازم ہوتا ہے۔ اس گروہ، جماعت، انجمن یا پارٹی کے افراد جس جگہ، مقام اور ماحول میں مِل کر باہمی تعاون سے کام کرتے ہیں۔ اس کو’’ادارہ (organization) کہتے ہیں۔
ادارے کے لغوی معنی،تعریف اور تشریح کیا ہوتے ہیں؟
ادارے کا لغوی معنی ذمہ داری (obligation, trust, charge, responsibility, duty)ہے جب کسی شخص کو کسی کام کا ذمہ دار ٹہرایا جاتا ہے، تو اسے رسپانس ایبل کہتے ہیں ـ مثلاً (میں نے فلاں پر فلاں کام کو لازم کر دیا ) اور اگر کسی شخص کو ذمہ داری سے فارغ کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں۔ ’’ریسٹیکیٹ کیا ہے مثلاً ( میں نے فلاں سے فلاں کام چھوڑنے کا کہہ دیا ہے۔) اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب کوئی فرد یا افراد یا لوگوں کی کثیر تعدادمل کر کسی جماعت یا ادارہ میں کام کرتی ہے، توان پر وہاں کسی خاص مقصد کے لیئے کیئے جانے والے کام یا متعدد کام کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک اقرار نامہ یا عہد نامہ (Contract, agreement) کے ذریعے تفویض کردہ امور کا تعین کیا جاتا ہے، جن کی پابندی بہر صورت لازم قرار دی جاتی ہے۔
انگریزی لغت کے مطابق لفظ ادارے (institute) کے لُغوی معنی بطور فعل(verb) ایک نظام کے قیام، شروعات، تشکیل، ایجاد اور اس کے ذریعے کسی مطلوبہ مقصد کے حصول اور اُس کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔
جدید سوشیالوجی کے ماہرین کے مطابق ادارہ معاشرے کے افراد کے درمیان باہمی ربط و روابط (interaction) کے وقت انسانی افعال اور اعمال کو باضابطہ مرتب(regulate) کرتا ہے۔
ادارتی نظام میں ذمہ داری(obligation and responsibility) کے علاوہ دوسری خاص بات ’’اختیار‘‘(authority) کی ہوتی ہے جس کے ذریعے معاشرے کے افراد کے ان روّیوں (behaviors) کومنضبط کیا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے مطلوبہ مشترکہ مقاصد کا حصول ممکن ہوتا ہے۔
آیا آج ہمارے ہاں جنھیں کوئی کام، ذمہ سونپا جاتا ہے، آیا اس کے پاس اتھارٹی ہے، وہ اپنے اتھارٹیز کو زیر استعمال لاسکتا ہے، یا نہیں ـ اگر اتھارٹیز نہیں تو کیوں نہیں ہیں، اگر ہیں تو وہ کیوں اتھارٹیز کو رویوں کی تبدیلی کیلئے زیر استعمال نہیں لاتا ـ تو اس بابت ہمیں سوچنا ہوگاـ ابھی اسی وقت وگر نہ ہم بغیر ادارے کے اور ادارتی ساخت کے بھٹکتے مسافروں کے مانند ہیں ـ جو سفر در سفر ہوتے ہیں، مگر کسی منزل تک نہیں پہنچ پاتے ہیں ـ اگر ہمیں اپنے منزل تک پہنچنا ہے، اپنے مقصد آزادی کو حاصل کرنا ہے تو ہمیں شخصیتوں کی اعلیٰ حصار سے نکل کر اپنے آپ کو اداروں، یا حصار میں ڈالنا ہوگا، نہیں تو ہم کٹتے رہیں گے، مرتے رہیں گے اور اسی طرح بٹتے رہیں گے ـ اور تقسیم در تقسیم سے نہیں بچ پائیں گے۔ جو مقصد کے حصول کیلئے انتہائی نقصان دہ ہےـ
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔