2 مارچ – بدل بلوچ

380

2 مارچ 

بدل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

حیرت ہوتا ہے ان نوجوانوں پر کے جو اپنے بلوچ ہونے کوکلچر ڈے منانے پر ثابت کرتے ہیں آج صبح کسی دوست نے مجھے کال کر کے پوچھا کہاں ہو یار تم کو پتا ہے آج ہمارا کلچر ڈے ہے اور سب دوست آئے ہوئے ہیں اور تم کیوں نہیں آئے ہو بہت مزا آرہا ہے سارے نوجوان مستیاں کررہے ہیں ڈھول پہ چاپ لگا رہے ہیں اور تم بھی آجاو،میں نے جی ہاں آتا ہوں ! کہہ کر کال کاٹ دیا….

میں اُن کے جانب روانہ ہوا بازار کے ایک چوک پر سارے نوجوان جمع ہوئے تھے اُن میں کچھ لڑکے تھے جن کا غلامی کو اور زیادہ بڑھانے میں ہاتھ ہے جو اپنے آپ کو دستار باندھ نے میں بڑے ماہر سمجھتے تھے جو باقی نوجوانوں کو لائین پے کھڑے کر کے انکے دستار باندھ رہے تھے، خیر وہ ماہر نوجوان سب کے دستار باندھ کے سب کو آواز دے رہے تھے کہ آجاو اب چاپ شروع کرتے ہیں پر سارے نواجوان ایک میدان کی طرف روانہ ہوئے میدان میں جمع ہوتے ہی ضمیر سے محروم غفلت کے نیند میں سوئے ہوئے نواجوان چاپ لگانے میں مشغول ہوئے ایسے بے غم دوشمن کے ساتھ دستار پہنے ہوئے فوٹو نکال رہے تھے جیسے انکو اپنے غلامی سے کوئی انکار نہیں جیسے انکو پتہ تک نہیں ہے کہ یہ ہے ہمارے ازلی دشمن یہی ہیں وہ ظالم سامراج جو ہمارے مادر وطن کو جبری طور پر قبضہ کیا ہوا ہے، یہی ہیں وہ دشمن جس نے ہزاروں ماوں کے پیاروں کو ان سے چھین لیا۔ یہی ہیں وہ مکار دشمن جس نے ہمارے ہزاروں بھائیوں کو زندانوں میں قید کر کے رکھا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں انکے لاشوں کو مسخ کر کے پھینک دیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے، میرے اندر میرا ضمیر سوال کررہا تھا.

ان نوجوانوں کو دیکھ کر مجھے شہید سمیع جا، شہید ثنا سنگت، شہید حئی جان، شہید مجید جان، شہید صدام جان شہید حق نواز اور وہ سارے نرمزار نواجوان یاد آنے لگے جنہوں نے اس مادر وطن کی خاطر ان نوجوانوں کی آنے والے دنوں کو بہتر بنانے کی خاطر اپنی جوانی سب کچھ قربان کر چکے ہیں اور خضدار یونیورسٹی میں کلچر ڈے منانے والے وہ سنگت سکندر بلوچ اور سنگت جنید بلوچ جنہیں کلچر ڈے کے دن دشمن فوج نے دستی بم حملہ کر کے شہید کیا، جنہیں اس وقت کلچر سے خوف تھا اور آج وہ کیسے دستار باندھ کر ہمیں کلچر ڈے یاد دلاتے ہیں اور یہاں وہ نوجوان بے غم دشمن کے ساتھ فوٹو نکالنے میں مصروف عمل ہے جن کو اپنے غلام ہونے کا احساس تک نہیں،

ایسے نوجوانوں کے اندر بھی انکو اپنا ضمیر لعنت بھیجتا رہتا ہے، جو زندہ ہوکر بھی مردوں کے مترادف ہوتے ہیں، پھر یوں ہی یہ ہمیشہ کیلئے اپنے زندگی کی اصل مقصد کو پہچاننے سے اندھے اور محروم رہ جاتے ہیں، اور آخر کار مٹی میں مل کر سڑ جاتے ہیں جس کے بعد نہ کوئی نام نہ کوئی کام یاد کیا جاتا ہے.

صرف دستار بڑا شلوار پہننا بلوچ ہونے کی پہچان نہیں ، ایک بلوچ ہونے کیلئے اپنے اندر اپنے ضمیر کو جگانا پڑھتا اپنے اندر شعور نامی جیسے شے کو جنم دینا پڑتا ہے، تب تم اپنے آپ کو اور اپنے مظلوم قوم کے اوپر ہوئے مظالم کو سمجھ پاو گے تب تم ایک حقیقی بلوچ ہونے کی پہچان کر پاو گے.

مگر افسوس یہ سوچ فکر صلاحیت تم میں نہیں ہےتم تو بس بے خبر صرف خود کی ذات تک محدود ہو، حقیقی بلوچ ہونے کو انہوں نے اپنایا ہے جنہوں نے

صرف اپنے ذات تک کیلئے نہیں بلکہ پورے بلوچ قوم کیلئے سخت سے سخت گھٹن حالات میں پیاس، بھوک سب مشکلات برداشت کررہے ہیں اور ان بہنوں کے غم درد دکھ تکلیف سب سمجھ سکتے ہیں، جو اپنے پیاروں کے لیے درپہ در بھٹکتے راستوں میں اپنے دن رات سردی میں گذارتے ہیں اور اپنے ہم کوپہ کی لاش کو کوپہ دے کر ایک روشن صبح کیلئے بڑے دلیرانہ انداز کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے ہے.

ادھر تم مشغول کلچر ڈے منانے میں، اور ادھر بہن کی چادر تر آنسوؤں سے،

آخر کب ہوش آئیگا تمہیں کب جاگو گے، غفلت کی نیند سے کب تم اپنی ان نادان حرکتوں کو اپنی کم فہمی سمجھو گے کب اپنی ان حرکتوں کو اپنے لیے نقصان دہ سمجھو گے کب اپنے لیئے ان حرکتوں کو جرم ناک سمجھو گے۔

اپنے آپ کو بلوچ کہنے سے اور بلوچ ہونے سے پہلے ذرا یہ بھی سوچیئے کیا واقعی میں مجھ میں وہ سب کچھ ہے، جو ایک حقیقی بلوچ میں ہونا ہے، نہیں بالکل نہیں اگر ہونا ہوتا تو آج شرم سے کچھ منٹ کیلئے اپنے آپ کو بلوچ نہیں کہتے.

ایک با شعور انسان ایک با شعور قوم تجھے تیرے ان نادان حرکتوں سے تجھے ہرگز بلوچ نہیں کہہ سکتا، سر پے دستاد باندھنے سے پہلے تم نے ذرا سا یہ بھی نہ سوچا کے وہ مائیں بہنیں کس کی مائیں بہنیں ہیں جو ہزاروں تکلیف دکھ درد سہہ رہے ہیں اور سڑکوں پر اپنے پیاروں کی بازیابی کیلے بھٹک رہے ہیں، دشمن بزدل تھالی چٹ کے دھمکیوں کو برداشت کر رہے ہیں  اور تم یہاں اپنے آپ کو کلچر ڈے منانے پر بلوچ ثابت کرتے ہو.

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔