ہندوستان کے جمہوری اقدار اور بلوچ – برزکوہی

361

ہندوستان کے جمہوری اقدار اور بلوچ

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان و بھارت کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری سرد و گرم کشیدگی کے دوران حال ہی میں کشمیر کے علاقے پلوامہ میں شدت پسندوں کے انڈین عسکری اہلکاروں پر حملے کے بعد کی جنگی صورتحال میں پاکستان کی طرف سے بارہا مذاکرات کی راہ اپنانے کی خواہش اور امن کے پیغامات کے پس پشت دراصل ایک خوف عیاں ہے، اور پاکستان غیر اعلانیہ طور پر شکست قبول کرچکا ہے، کیونکہ پاکستان اس وقت عسکری کشمکش کی سکت نہیں رکھتا اوراس کی بنیادی وجہ ایک طرف پاکستان کی اندرونی منتشر صورتحال ہے اور دوسری جانب بالخصوص پاکستان کی کمزور اقتصادی حالت اس قابل نہیں کہ وہ انڈیا کے ساتھ طویل جنگ یا کشیدگی کو برقرار رکھ سکے۔

اس کے علاوہ پاکستان کے زیر قبضہ علاقوں میں محکوم اقوام بلوچ، پشتون، سندھی اور مہاجروں میں پیدا ہونے والی نفرت اور مزاحمت کے دن بدن بڑھتے رجحانات اور پھر ہمسایہ ممالک میں مذہبی شدت پسندوں کا سہارا لیکر بے چینی و انتشار پیدا کرنے کی کوششوں اور پالیسیوں نے پاکستان کے حوالے سے دنیا میں ایک بیزاری کی کیفیت پیدا کردی ہے۔

ہندوستان و  پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے تناظر میں اگر ہم بھارت اور پاکستان میں موجود سوچ اور رائے کا موازنہ و تجزیہ کریں تو ہمیں بآسانی بڑا تضاد نظر آتا ہے۔

بھارت کی جمہوری نظام کے تناظر میں وہاں پہ پرورش پانے والی جمہوری سوچ نے اختلاف رائے اور تنقید کرنے اور اسے شائستگی سے برداشت کرنے کی روایت کو جنم دیا ہے ۔

اب اگر کوئی بھارت میں موجودحکومت اور اپوزیشن کے درمیان جمہوری اصولوں پہ مبنی اختلافِ رائے اور تنقید کو انتشار اور تفریق سمجھتا ہے تو وہ اس کی اپنی محدود سوچ اور کھوکھلے پن کے ساتھ ساتھ وہاں کی جمہوری تاریخ اور روایات سے نابلدی کی واضح نشانی ہے۔

دوسری جانب اگر بھارت و پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران پاکستان کی سیاسی، سماجی و عسکری اداروں کی صورتحال کا سرسری جائزہ لیں تو ہمیں واضح انداز میں نظر آتا ہے کہ دھونس، دھمکی، خوف و لالچ کے بل بوتے پر پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا اداروں، مذہبی گروپس سمیت اپنے نام نہاد دانشوروں اور اینکر پرنسز کو محب الوطنی اور اسلام دوستی کی نکیل ڈال کر اپنے رنگ میں رنگ دیا ہے۔

اس بات اور امر سے ہر ذی شعور انسان آگاہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے امن کی خواہش اور خیر سگالی کا اعلان صرف اور صرف ظاہری دعویں ہیں کیونکہ اس وقت ہندوستان بشمول دوسرے ہمسایہ ممالک اور بالخصوص پوری دنیا کو پاکستان نے اپنے مذہبی شدت پسند اثاثوں کے بدولت بلیک میل کیا ہے کہ اگر ہم نہ ہونگے تو کوئی نہیں ہوگا، یعنی ہمسایہ ممالک سمیت دنیا میں مذہبی شدت پسندحرکت میں آئیں گے۔

اس تمام گنجلک اور دگر گوں صورتحال اور حالات میں ہمارے سامنے جو سب سے اہم سوال اٹھ کرنمودارہوتا ہے وہ یہ کہ بلوچ
قوم اور بلوچ قومی تحریک کہاں پہ اور کس حالت میں کھڑا ہے؟

کیا آج ہم ( تحریک) اس قابل ہے کہ عالمی سطح پہ دستیاب سنہرے اور موافق حالات سے اپنے قومی بقاء کے حفاظت کے خاطر فائدہ اٹھائیں؟ یا حسب معمول ماضی کی طرح یہ موقع بھی بلوچ قوم اور تحریک کھو دیگا؟

آج ہر باشعور سیاسی کارکن سمیت قوم کے مشاہدے اور حافظے میں یہ امر محفوظ ہے کہ ہندوستان جیسے جمہوری اقدار و روایات کے امین ملک کے حکومت اور اپویشن کو اپنے اختلافات کو میڈیا کی زینت نہ بنانے کی درس دینے والوں نے کس طرح بلوچ تحریک کے انتہائی معمولی معاملات اور تحریک سے وابستہ جہدکاروں کی کردار کشی کیلئے میڈیا کا سہارا لیا گیا اور آج بھی اردگرد اور عالمی سطح پہ موافق حالات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنے اپنے مخصوص ایجنڈوں کی تکمیل کیلئے سرگرداں لوگوں نے راہ فرار اختیار کرکے منظم بلوچ قومی قوت و طاقت کو آپسی الجھن اور انتشار کی بھینٹ چڑھا کر سبوتاژ کرکے حقیقی جہدکاروں کو دیوارسے لگا دیا۔

کیا ایسی سوچ اور طریقہ کار اپنانا معاملہ فہمی و ادراک کے فقدان کی نشانی نہیں ہے ؟

اگر بلوچ تحریک میں تواتر کے ساتھ پیش آنے والے واقعات و حالات پہ سوچ بچار کیا جائے تو یہ رائے راسخ ہوجاتا ہے کہ قومی جنگ کی شدت کو کم کرنے اور اسے آہستہ آہستہ ختم کرنے کی دانستہ منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔

مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک کو جمہوریت کی پاٹ پڑھانے والے عناصر نے دو ہزار دس میں کس طرح معمولی اندورنی معاملات کو میڈیا کی زینت بنایا، پھر اب حال ہی میں استاد اسلم کے علاج کو لیکر پورے بلوچ تحریک کو دنیا کے سامنے بدنام کرنے کیلئے کس نے اخباری بیان جاری کیا اور پھر دالبندین میں چینی کارندوں پر حملے بعد کس نے میڈیا میں اپنا منہ کالا کیا ؟

ذاتی ضد اور انا کی تسکین کی خاطر پورے بلوچ تحریک کو میڈیا میں تماشہ بنانے والے آج انڈیا جیسے جمہوری ملک کو اپنے اختلافات کو میڈیا میں نہ لانے کی تلقین کرئے، کیا یہ انتہا درجے کی مضحکہ خیری کے زمرے میں نہیں آتا ہے ( انڈیا کی حکومت و اپوریشن کو جمہوری رویہ اپنانے کی تلقین کرنے والے کو گوکہ آج کل کوئی گھاس تک نہیں ڈالتا اور اس امر سے سب واقف ہیں، یہ سب کچھ استاد اسلم بلوچ کے انڈیامیں علاج والے بیان کی شرمندگی کو ختم کرنے اور صفائی دینے کی خاطر کیا جارہا ہے )

میں اپنے تحریروں میں پہلے بھی بارہا اورآج بھی برملا کہتا ہوں کہ بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک اس وقت انتہائی مشکل ترین صورت حال سے دوچار ہے، مگر بلوچ قوم بالخصوص بلوچ نوجوانوں کی جذبہ قربانی، خلوص، محنت ومشقت کے علاوہ اردگرد کے حالات کے تناظر میں بلوچ تحریک کے لیئے حالات بالکل موافق ہیں اور بلوچ قوم کے لیئے یہ سنہرا موقع ہے، اگر بالفرض اس موقع کو بھی ہم نے گنوا دیا تو یہ بلوچ قیادت اور بلوچ جہدکاروں کی سطحی سوچ،غیرسنجیدگی ،کم علمی اور حالات کے ادراک سے انتہا کی حد تک ناواقفیت ہی ہوگا۔

ہاں اس امر کو ہر صورت ہمیں اپنے ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ کچھ لوگ ریاست کی جبر، مشکلات، حالات کے دباؤ میں آکر تھکاوٹ و خوف کا شکار ہوکر راہ فرار اختیار کرکے آرام و سکون والے زندگی کی خواہش میں مبتلا عناصریہ لغو دلیل پیش کریں گے کہ حالات اس وقت بلوچ قوم کے حق میں نہیں ہیں۔

تو یہاں پہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے حالات کب مکمل بلوچ قوم کے حق میں تھے؟اور کیسے حق میں تھے؟ اور اگر ابھی نہیں تو کب حق میں ہونگے؟ وہ وقت وہ حالت کونسا ہوگا؟ کب ہوگا؟ اُس وقت بلوچ قوم، ساحل وسائل، قومی بقاء اور قومی شناخت پھر کس اسٹیج پرہوگا؟

اس تمام صورتحال میں انتہائی سنجیدگی سے غور و فکر کرکے غیرضروری اور ثانوی چیزوں اورسطحی معاملات کو پس و پشت ڈال کر روایتی طرز کے رویے اور مزاج سے باہر نکل کر سب کو متحرک اور فعال کردار کے ساتھ قومی جنگ کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھانا ہوگا کیونکہ اسی میں بلوچ قومی بقاء اور تشخص کی ضمانت اور قومی ریاست کی بحالی پوشیدہ ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔