ہم کیا کر رہے ہیں؟ – نودشنز بلوچ

263

ہم کیا کر رہے ہیں؟

تحریر:نودشنز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

طالب علموں اور نوجوانوں کو ہر معاشرے کا شہہ رگ تصور کیا جاتا ہے، معاشرے میں نوجوان اور خاص کر طالب وہ ہوتے ہیں جن کے کردار کو ہم معاشرے میں ہرجگہ پائینگے، سیاسی کام ہو یا سماجی اور بلوچ معاشرہ یا بلوچ سیاست زیر بحث ہو تو نوجوان اور طالب علموں کی بات نہ ہو تو بحث نامکمل ہوتا ہے ۔

اگر ہم بلوچ معاشرے یا بلوچ سیاست پہ بات کریں اور ہلکی نظر بلوچ سیاست پہ دوڑائیں تو ہمیں دیکھنے میں آئے گا کہ بلوچ نوجوان اور بلوچ طالب علم ہر جگہ پیش پیش نظر آتے ہیں، چاہے وہ یوسف عزیز مگسی ہو یا گل خان نصیر یا حالیہ جدوجہد میں وہ ہزاروں طالب علم ہوں، جن کے کردار کو چھپانا سورج کی روشنی انگلی سے چھپانے کا مترادف ہوگا اور دشمن بھی طالب علموں اور نوجوانوں کے کردار سے بخوبی واقف ہے اور اسی بنیاد پہ ہم دیکھتے ہیں دشمن نے بھی سرمچار یا دیگر معاشرے کے مکاتب فکر کے لوگوں کے بجائے طالب علموں اور نوجوانوں کو پہلے کاؤنٹر کرنا شروع کیا اور آج ہزاروں کی تعداد میں بلوچ طالب علم اور نوجوان پاکستانی ٹارچر سیلوں میں غیر انسانی سلوک برداشت کر رہے ہیں اور کئی لوگ شہید کئے گئے ہیں، بلوچ طالب علم رہنما ذاکر مجید، زاہد بلوچ، شبیر بلوچ، سمیت کئی اسٹوڈنٹس اس وقت پاکستانی ٹارچر سیلوں میں ہیں اور ان کی بازیابی کے لئے پچھلے کئی سالوں سے بلوچ مائیں، بہنیں اور بزرگ سراپا احتجاج ہیں۔ اور ہر کوئی لاپتہ بلوچوں کے معاملے کو اپنی اپنی طرح رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے اس وقت کئی سوالات ذہنوں میں آرہے ہیں۔

اس وقت ذہن میں کئی سوالات ابھر رہے ہیں، کیا بلوچ قومی مسئلہ لاپتہ بلوچوں کی بازیابی سے حل ہوجائیگا؟ کیا فوجی آپریشن اگر بند ہوجائیں تو بلوچ قومی مسئلہ حل ہوجائیگا؟ جو بلوچ لاپتہ ہوئے ہیں، انہیں پاکستان نے کیوں حراست میں لے کر لاپتہ کیا؟ اور اس سے بڑی بات اس وقت بلوچ سیاست اور طلبہ سیاست کی کیا پوزیشن ہے؟ کیا اس وقت بلوچ جو طلبہ تنظیمیں ہیں، وہ طلبہ سیاست پہ پوری طرح اتر رہے ہیں یا نہیں؟ اگر اس پہ باتیں کریں تو انسان بہت بڑی کشمکش میں مبتلا ہوگا، پھر ہمیں ضرور کچھ سال پیچھے جانے کی زحمت کرنا پڑیگا تو پھر ہم اس نتیجے پہ پہنچ جائیں گے کہ 2008سے لے کر 2019تک کچھ وقتوں کے لئے ہمیں بلوچستان میں طلبہ سیاست دیکھنے کو نصیب ہوگا، اس طرح کہ پاکستان نے مکمل طالب علموں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کی طالب علم رہنما اغواء ہوئے، کئی شہید ہوئے اور ہم کالج اسکول اور یونیورسٹیوں سے باہر ہوگئے پھر بھی ہم خواب خرگوش میں رہے اور اپنے آپ کو کالج اور اسکولوں تک محدود رکھنے کی ناکامی کوشش کرتے رہے، اس بیچ ہم نے زاہد کو کھودیا، شبیر کو کھودیا کئی چھوٹے بڑے رہنما کھودیئے اور آخر میں جاکر سر کو پکڑ کر بیٹھ گئے، پھر بھی ہم نہیں سمجھ سکے کہ پاکستان وہ پرانے والے سیاست کو کرنے نہیں دے گا اور ہم سیشن اور جنرل باڈی کرتے رہے، چہرہ بدلتے رہے اور بنیادی پالیسی آج بھی وہی ہے کہ ہم پریس کلبوں اور یونیورسٹیوں کی سیاست کریں۔

ہم اس بات کو کب سمجھ جائینگے کہ ہم پاکستان سے آزادی چاہتے ہیں اور بلوچستان کی آزادی کا مقصد پاکستان کی موت ہے، اس بات سے ہر کوئی واقف ہے کہ جو جانتا ہے یہ میرے موت کی باعث بنے گی وہ مجھے ختم کرے اس سے پہلے میں اس کو ختم کروں آج اگر ہم بی ایس او کی پالیسیوں پہ تنقید کریں تو یہ جواب آتا ہے کہ ہم نے تو بی ایس او کے لیڈر شپ کو انڈر گراؤنڈ رکھا ہوا ہے، پھر یہی بات سامنے آتا ہے کہ آپکے جو بیسک پالیسیاں ہیں، وہ کون سے ہیں اور کتنے وقت پرانے ہیں؟ کیا آئی ایس آئی کے اتنے سورس نہیں ہیں وہ آپ کے نام کا پتہ چلا سکے نام ظاہر نہ کرنے سے کیاآپ وہی کبوتر اور بلی کی کہانی دہرا رہے ہو؟

اس کے علاوہ اگر ہم پورے بلوچ سیاست پہ ہلکی نظر دوڑائیں، ہوش سے سوچیں اور چیزوں کو دیکھیں تو ہم یہی کہیں گے ہم کیا کر رہے ہیں؟ جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں یاوہ جو آزادی کی باتیں کر رہے ہیں، بہت سے جگہوں پہ ان کے پالیسیاں یکساں نظر نہیں آرہے ہیں؟ ایک طرف ہم کہتے ہیں جو لوگ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر سیاست کر رہے ہیں، وہ پاکستان کے بیانیئے کو بیان کرتے ہیں، مگر ہم دیکھتے ہیں اختر مینگل جاتا ہے پارلیمنٹ میں تو چھ نکات پیش کرتا ہے، وہاں سرفہرست مسنگ پرسنز کا مسئلہ ہے اور وہ یہی تاثر دیتا ہے اگر مسنگ پرسنز کا مسئلہ حل ہوجائے تو بلوچوں کا مسئلہ حل ہوجائیگا۔ اگر ہم باریک بینی سے دیکھ لیں اور سوچیں ہم کیا کر رہے ہیں، ہمارے اور اختر مینگل کے بیانیئے میں کیا فرق ہے، گذشتہ روز اقوام متحدہ کے چالیسویں اجلاس میں ہم کیا کہہ رہے تھے؟ اور ہمارا مسئلہ کیاہے؟ وہاں بھی ہم یہی کہہ رہے ہیں سی پیک کے نام پہ یہاں فوجی آپریشن ہورہا ہے، یہاں لوگ لاپتہ ہورہے ہیں، یہاں بلوچوں کو مارا جارہا ہے، ان تمام چیزوں سے ہمیں ایک ایسا بھی بیان سامنے نہیں آیا کہ پاکستان یہاں قابض ہے، ہمیں آزادی چاہیئے۔

مان بھی لیں اگر کل کو پاکستان پہ دباؤ بڑھ گیا، تو پاکستان نے تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا یا انہیں عدالتوں میں پیش کیا گیا فوجی آپریشن بند کیا، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پہ ہم رو رہے ہیں ان تمام چیزوں کو پاکستان نےختم کیا تو ہمارے سامنے کیا بات ہوگی ہم دنیا کو کیا بتائینگے ہم تو پہلے یہ کہہ رہے تھے، یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، وہ تو نہیں ہوا ہے پھر ہم کیا کرینگے؟

کیا ہم بھول گئے ہیں، یہ تمام چیزیں کیوں پیش آرہے ہیں؟ یہ لوگ لاپتہ کیوں ہورہے ہیں؟ یہ بات تو یقینی ہے یہ تمام چیزیں پاکستانی غلامی اور بلوچ سرزمین پر قبضے کی وجہ سے پیش آرہے ہیں، پھر ہم پاکستانی قبضے کو بھول کر اوردرمیان میں یہ ہیومن رائٹس وائیلیشن کی بات کیوں کررہے ہیں؟ پھر ایک بات یہ جو ہم یو این اور ایمنسٹی انٹرنیشل دوسری تیسری جو انسانی حقوق کے اداروں کے بات کررہےہیں اگر ہم دیکھیں یہ ادارے کتنے صاحب اختیار ہیں؟ یہ کتنے پاور فل ہیں، تو صاف جواب یہی ہے زیرو بٹا زیرو، ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے یہ سب نام کے ہیں جن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات ہم کر رہے ہیں یہ دنیا میں کہاں نہیں ہورہے ہیں؟ شام میں ہر سال کتنے لوگ لقمہ اجل بن رہےہیں؟ عراق میں کتنے لوگ روزانہ کی بنیاد پہ مر رہے ہیں؟ افغانستان اور کشمیر میں کیا پوزیشن ہے انسانی حقوق کی ؟ اور چین میں کتنے مسلمانوں کو چینی حکومت نے بندی بنا کہ رکھا ہے؟ کہاں ہیں یہ انسانی حقوق کے ادارے؟ ان تمام چیزوں کی روک تھام کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ کیوں خاموش ہیں؟

دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں یہ طالبان تو لوگوں کو توپوں سے اڑاتے ہیں، لوگوں کو اسکولوں میں، بازاروں میں اجتماعی موت کے ذریعے مارتے ہیں، یہ انسانی حقوق کی انتہائی خلاف ورزی کرتے ہیں اور کر رہے ہیں مگر دنیا کے سب سے بڑی طاقت امریکہ ان کے ساتھ ٹیبل ٹاک پہ بیٹھ کر بات کر رہا ہے۔

ایک بات ہم یاد رکھیں یہ جو اس وقت ہمارے لوگوں کو لاپتہ کر کے کئی سالوں تک حراست میں لے کر لاپتہ کرنا ہے، جہاں بھی جنگیں ہوئی ہیں لوگوں کو اس طرح اغواء اور حراست میں لے کرلاپتہ کرنا یا مارنا لاشیں پھینکنا معمول ہوجاتاہے۔ مگراکثر وقت اور حالات کے مطابق یہ پالیسی کو ترک کیا گیا ہے، ہوسکتا ہے پاکستان بھی آنے والے دنوں میں اس پالیسی کو ترک کر دے مگر ہمیں یہ باتیں پہلے سے سوچنا چاہیئے۔ میں نہیں کہتا ہوں کہ لاپتہ بلوچوں کا معاملہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا، یہ بہت بڑا مسئلہ ہے بلکہ مسئلہ نہیں ایک انسانی المیہ ہے، انسانی حقوق کے ادارے اس پہ ضرور آواز اٹھائیں، مگر میں یہ بات پھر بھی کہہ رہا ہوں کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ وہ بے بس ہیں، ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور بلوچ اس طرح ہیومن رائٹس وائیلیشن کا رونا رونے کے بجائے موثر انداز میں پاکستانی غلامی اور قبضے کو ہائی لائیٹ کریں تو بہتر ہے اور اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ بلوچوں کا مسئلہ ہیومن رائٹس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ پاکستانی غلامی اور اس کا قبضہ ہے اور جب تک پاکستان بلوچ سرزمین پر قابض ہے اس طرح ہوتا رہیگا اور اس طرح ہم جو انسانی حقوق کے اداروں کے سامنے یہ انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پر رونا رو رہے ہیں، یہ ہوتے رہیں گے اور بے بس انسانی حقوق کے ادارے کچھ بھی نہیں کرسکتے کچھ ان کے ہاتھ میں ہو وہ کرینگے ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور وہ ہم سے زیادہ بے بس ہیں ۔۔۔۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔