بلوچستان کے ضلع گوادر میں ماہی گیر اتحاد کا آج چوتھے روز بھی احتجاجی کیمپ ملا موسیٰ موڈ پر قائم رہا۔ کیمپ میں آج پہلی بار نیشنل پارٹی کی ایک خاتون، سابقہ ایم پی اے یاسمین لہڑی بھی اپنی پارٹی ممبران کے ہمراہ مظاہرین سے اظہارِ یکجہتی کی۔
یاسمین لہڑی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماہی گیروں کو لیبر لا کے مطابق ان کے جائز حقوق نہیں دیئے جا رہے ہیں۔ جبکہ سندھ کے ماہی گیروں کو یہ حقوق کسی حد تک مل رہے ہیں۔ ماہی گیر ہمارے دست و بازو ہیں، ان کی گزرگاہوں، ان کے گودیوں اور تعلیم و تربیت کے مطالبے جائز ہیں۔ سی پیک کا سب سے بڑا روٹ تو گوادر سے نکل کر چائنہ تک جاتا ہے لیکن یہاں کے باسیوں کے چند مطالبات گذشتہ کئی مہینوں سے التوا کے شکار ہیں، انہیں صرف طفل تسلیاں دی جا رہی ہیں۔
نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر عبدالخالق بلوچ نے کہا کہ ترقی کے ثمرات سے اگر بلوچوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا تو اس عمل کو کوئی بھی برداشت نہیں کرے گا۔ گوادر اس ملک کا شے رگ ہے اور یہ ماہی گیر اس کے اصل اور قدیم باشندے ہیں۔ یہ ہزاروں یا لاکھوں انسان بے روزگا ر کرائے گئے تو پورا بلوچستان ان کی آواز بنے گا۔
جماعت اسلامی صوبہ بلوچستان کے جنرل سیکریٹری مولانا ہدایت الرحمان اور ضلعی امیر سعید احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب یہاں پر ہم سب احتجاج پر بیٹھے ہیں تو اس وقت یہاں پر ایم این اے اور ایم پی اے جو ہمارے اور ماہی گیروں کے نمائندے ہیں انہیں موجود ہونا چاہیے، وہ بھی ان کے درد و تکلیف کا ادراک رکھیں اور محسوس کر کے ان کے احتجاجی دھرنے میں ان کے ساتھ بیٹھ جاتے۔
آخر میں ماہی گیر اتحاد کے رہنما واجو خداداد نے اپنے خطاب میں تمام سیاسی پارٹیوں کے اکابرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس سرزمین کو اپنا ملک سمجھتے ہیں۔ یہ ماہی گیر کسی دوسرے خطے سے نہیں آئے ہیں۔ یہ صدیوں سے اس سرزمین کے اصل وارث ہیں۔ یہ ملک اپنے آپ کو ایک ویلفیئر اسٹیٹ کہتا ہے۔ اس کے ماہی گیر اس کے دہقان ہیں۔ وہ اسی سمندر سے ہزاروں سالوں سے اپنی روزی روٹی تلاش کر رہے ہیں، کسی سے بھیک نہیں مانگتے ہیں، اپنی محنت سے اپنی گزر بسر کر رہے ہیں، ان کو اگر آج راستہ نہ دیا گیا تو وہ نان شبینہ کے محتاج ہوں گے۔ ماہی گیروں کے کئی دیگر مسائل ہیں، سردست ان کو گزرگاہیں، گودیاں، اوکشن ہال اور ان کے بچوں کو تعلیم و ہنر دیا جائے۔