کوئٹہ: لاپتہ افراد کیلئے احتجاج کو 3537 دن مکمل

99
File Photo

اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں مشکے سے سیاسی و سماجی کارکنوں کا ایک وفد شامل

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اظہار یکجہتی کرنے والوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشکے اور گردونواح میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کی تیاریاں جاری ہیں۔ فورسز کی باری نفری اور گن شپ ہیلی کاپٹر پہنچ چکے ہیں۔ بلوچستان میں پاکستانی فورسز آپریشن کی تیاریاں کررہے ہیں۔ پاکستانی فورسز اپنی پے در پے ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مسلسل مقامی آبادی کو نشانہ بنا رہی ہیں جبکہ اپنے تمام حربوں کی ناکامی کے بعد اب پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے بلوچستان بھر میں نسل کشی اور قتل عام میں اضافہ کر دیا ہے۔

ماما قدیر نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مشکے ، جھاؤ، آواران، ڈیرہ بگٹی اور کوہلو سمیت بلوچستان بھر سے بلوچ خواتین کی اغواء نما گرفتاری اور اُن کو اس طرح لاپتہ رکھنا انتہائی شرمناک عمل ہے، 1971 کی طرح پاکستان ایک بار بلوچستان میں بلوچوں کے ساتھ ٹھیک ویہی ظلم کر رہا ہے جس طرح بنگالی خواتین اور بچوں کے ساتھ کیا گیا تھا، جس کے خلاف آٓج بلوچ مائیں، بہنیں اپنے لخت جگروں کے بازیابی کے لیئے جدوجہد کر رہی ہیں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئر مین کا کہنا تھا کہ آج یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بلوچ فرزندوں سمیت بلوچ خواتین اور بچوں کو کون غائب کرنے کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں پھنکنے کے علاوہ اُنہیں اجتماعی قبروں میں بغیر شناخت کے دفنا رہا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کے حالات 2008 سے بھی زیادہ بدتر ہوچکے ہیں لیکن اسکے باوجود نام نہاد پارلیمانی سیاست دان اسی ظالم ریاست کے آئین کے تحت حلف اٹھا کر پاکستان کے بلوچ قتل عام میں ریاست کی بچھائی ہوئی خونی شطرنج کے کھیل میں معاون بنے ہوئے ہیں۔

انہوں نے اپنے گفتگو کے آخر میں کہا کہ ہمیں اس ظلم کے خلاف اپنی جد وجہد کو مزید منظم اور بھر پور انداز میں جاری رکھنا ہوگا ۔