چیئرمین زاہد بلوچ کی پانچ سالہ گمشدگی
تحریر: توارش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کسی بھی تحریک میں قربانی پہلی اور ضروری امر ہوتا ہے، تحریک کی کامیابی تحریک سے جُڑے کارکنان کے ہمت، جذبے اور حوصلے سے وابسطہ ہوتا ہے۔ اگر تحریک سے وابسطہ لیڈران اور کارکنان میں قربانی کا جذبہ نہ ہو تو پھر وہ کامیابی کے منازل طے نہیں کر پاتے ہیں۔ جب بلوچستان پر قبضہ ہوا تو اُسی دن سے ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ قوم نے دشمن کے قبضے کو چیلنج کرنا شروع کیا، بلوچ قوم کے سپوتوں کے اندر قومی جذبہ، فکر، سوچ، نظریہ اور قومی آزادی کی چاہت نے ہر وہ مصائب و آلام برداشت کیئے، جن سے کسی انقلابی ساتھی کو گذرنا ہوتا ہے۔ انہی لیڈران میں ایک سنگت زاہد بلوچ تھے، زاہد بلوچ کی قومی تحریک سے کمٹمنٹ جدوجہد سے دلی وابستگی اور قومی کاز کی خاطر شب و روز محنت لگن کے ساتھ جدوجہد دشمن کیلئے ایک خوف تھا، زاہد کو کسی بھی ریاستی زندان جبر اور بربریت سے ڈر نہیں تھا بلکہ وہ آزادی جیسے نعمت کی اہمیت اور افادیت سے واقف تھا، وہ جانتا تھا کہ اس راہ میں زندان، مسخ شدہ لاشیں، اجتماعی قبروں میں دفنائے جانے کا خطرہ سمیت کوئی بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن قوم اور زمین سے دوستی محبت اور لگن نے چیئرمین زاہد کے اندر سب ڈر اور خوف مٹادیا تھا۔
بی بی سی کو اپنے ایک انٹرویو کے دوران سنگت زاہد بلوچ کہتے ہیں کہ میں بھی اگر پاکستانی فوج کے ہاتھ لگ گیا تو وہ میرے ساتھ بھی وہی کریں گے جو میرے دوستوں کے ساتھ ہوا ہے یعنی میری بھی لاش کہیں کسی ویرانے میں مل سکتی ہے۔ میں بھی سالوں سال لاپتہ ہو سکتا ہوں، مجھے بھی قتل کر دیا جائے گا۔ بی ایس او آزاد کے سینکڑوں کارکنان کو ریاستی فوج نے گرفتار کرنے کے بعد نمیران کیا ہے، ان میں ممبران سمیت مرکزی قیادت بھی شامل ہے، بی ایس او چونکہ پرامن سیاست پر یقین رکھتا ہے اس کی واضح مثال تنظیم کے درجنوں کارکنان اور لیڈرشپ کی گمشدگی اور قتل کے باوجود سیاسی جدوجہد ہے۔
بی ایس او کے ممبران کو ریاست نے لاپتہ کیا، پھر درجنوں کو نمیران کیا لیکن بی ایس او نے اپنے موقف میں تبدیلی نہیں لائی اور کسی بھی تشدد کی جانب رواں نہیں ہوا، جب بھی ریاست نے کسی کارکن یا لیڈر کو لاپتہ کیا تو تنظیم نے پرامن انداز میں مظاہرے، سیمینار، ریلیاں اور سوشل میڈیا مہمات چلائے لیکن اپنے کارکنان کو تشدد کو نہیں کہا اس کی وجہ بی ایس او کا پرامن جدوجہد ہے کیونکہ بی ایس او اور اس کی لیڈرشپ یہ ادراک کر چُکی ہے کہ بی ایس او چونکہ ایک اسٹوڈنٹ طلباء تنظیم ہے اور وہ بلوچ طلباء کی سیاسی شعور پر یقین رکھتا ہے اور جب کوئی تنظیم کسی سیاسی مقاصد کی خاطر جدوجہد کر رہی ہے تو اُسے کسی بھی تشدد کو سپورٹ کرنے کا جواز نہیں بنتا، آزادی کا موقف ایک بہت سخت موقف ہے دنیا میں قابض قوتیں چونکہ ان کی قبضہ گیری ہی تشدد پر مبنی ہے، وہ سیاسی تنظیموں اور لیڈرشپ کو تشدد کی جانب دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں اور کارکنان کو تشدد کرنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن زاہد جیسے دوراندیش اور بالغ سیاسی لیڈرز نے ریاستی جبر اور طاقت کے استعمال کے باوجود بی ایس او کو تشدد سے دور ہونے کی راہ دکھائی، جس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ بی ایس او کے لیڈران جب اور جہاں بھی حراست میں لیئے گئے ہیں، اُن کے ساتھ ہمیشہ کتابیں ہی رہے ہیں۔
جب چیئرمین زاہد بلوچ نے 2010 میں تنظیم کا باگ ڈور سنبھالا تو اس وقت ریاست بی ایس او کے خلاف اپنی پوری طاقت استعمال کر رہی تھی، لیکن زاہد نے تنظیم کو پرامن رکھا اور تنظیم کو زیادہ سے زیادہ یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں بحال کرنے کی کوشش کی، سنگت زاہد کی جدوجہد قربانیوں اور محنت و لگن کے بعد ہی بی ایس او کے کارکنان اداروں میں اپنے آپ کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہوئے، بی ایس او کے پرامن اور شعوری فکر و سوچ کو دیکھ کر پاکستانی ایجنسیاں بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے تھے، جب 2012 کا کونسل سیشن ہوا اور بعدازان جب سنگت چیئرمین زاہد بلوچ تنظیم کے چیئرمین منتخب ہوئے تو ریاست زاہد سے مزید خوفزدہ ہو گیا، ایک طرف سنگت زاہد تھا جو تنظیمی کاموں کے سلسلے میں ہر علاقے کا دورا کر رہا تھا اور تنظیم کو فعال کرنے کیلئے اپنے دن رات ایک کئے ہوئے تھے، چونکہ بی ایس او پاکستان کیلئے پہلے سے ہی ایک دردِ سر تھا اور زاہد کی لیڈرشپ میں بی ایس او اب دشمن کیلئے ایک خطرہ بن چُکا تھا اس لیئے ریاست زاہد کی تلاش میں سرگرداں تھا۔
دوستوں کے مطابق ہم سنگت زاہد کو کہتے تھے کہ دوشمن آپ کی تلاش میں ہے، اس لیئے زیادہ سفر نہ کریں اور کوشش کریں کہ دشمن سے اپنے آپ کو بچائیں، آپ کی موجودگی نہ صرف تنظیم کیلئے بلکہ پوری قوم اور قومی تحریک کیلئے بہت ضروری ہے۔ اس لیئے جہاں دشمن کے ہاتھ لگنے کا خطرہ ہے، وہاں جانے سے گریز کریں لیکن چیئرمین زاہد کام کرنے اور جدوجہد کرنے کے فلسفے پر یقین رکھتا تھا، وہ کہتا تھا کہ اگر میں تنظیم کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنے آپ کو تنظیمی کاموں سے دور کرنے کی کوشش کروں گا تو ہم تنظیم کو فعال نہیں کر سکتے ہیں، اس لیئے تنظیم کو فعال کرنے کیلئے ہمیں اپنے دن رات ایک کرنے ہونگے۔ سنگت زاہد چھپنے والوں میں نہیں تھا، اس لیے وہ ہر جگہ اپنے دورے کر رہا تھا، شاید ہی بلوچستان کا کوئی ایک ایسا قصبہ گاؤں اور علاقہ ہوگا جہاں سنگت زاہد بلوچ نے سفر نہ کیا ہو، جہاں سنگت زاہد بلوچ نے بی ایس او اور قومی آزادی کے فکر اور فلسفے کو نہیں پھیلایا ہو، سنگت زاہد کی جدوجہد قربانیوں اور محنت و لگن نے تنظیم کو ایک علاقے اور ریجن سے نکال کر پورے بلوچستان میں پھیلایا، جو تنظیم کی تاریخ میں سب سے بڑی کامیابی تھی۔
دشمن کی سنگت زاہد کے خلاف تلاش جاری تھی اور دوسری جانب اسی وقت کچھ مخصوص لوگ بھی سنگت زاہد بلوچ کے خلاف منظم پروپگنڈا چلا رہے تھے لیکن چیئرمین سارے مصائب اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے منزل اور اپنے کام پر فوکس رکھے ہوئے تھے، جس کے ثمر تنظیم اور قومی تحریک کو ملتے رہے۔ لیکن بدقسمتی سے آخر کار 18 مارچ 2014 کو دوشمن کیلئے وہ دن آ گیا جس کیلئے وہ برسوں سے کوششوں میں تھا، 14 مارچ 2018 کے دن سنگت کو قابض فوج کے اہلکاروں نے لاپتہ کر دیا اُس دن سے لیکر آج تک سنگت زاہد بلوچ میڈیا کے سامنے نہیں لائے گئے ہیں۔
بی ایس او آزاد، جو میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ سنگت زاہد بلوچ کی کوششوں اور محنت کے بعد ایک پرامن سیاسی جدوجہد میں مصروف عمل ہو گیا تھا، سنگت زاہد کی گمشدگی کے بعد اُس کی رہائی کیلئے پرامن طریقے سے جدوجہد کیا، سنگت زاہد بلوچ کی بازیابی کیلئے تنظیم کے ایک سابقہ سی سی ممبر نے تا دم مرگ بھوک ہڑتال بھی کی جس کو زاہد کی بازیابی کی یقین دہانی کی گئی، جس کے بعد اُس نے اپنے احتجاج کو ختم کیا لیکن احتجاج کے ختم ہونے کے بعد وہ ساری تنظیمں بی ایس او کے چیئرمین سنگت زاہد کو بازیاب کرانے میں ناکام ہوئے۔
آج پانچ سال ہو چُکے ہیں کہ بی ایس او آزاد کے چیئرمین سنگت زاہد بلوچ پاکستانی فوج کے ٹارچر سیلوں میں قید و بند و اذیت کی زندگی گذار رہے ہیں، جو نہ صرف جمہوری جدوجہد پر قدغن لگانے کے مترادف ہے بلکہ انسانی اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جو تنظیمیں انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اُنہیں چاہیئے کہ وہ زاہد بلوچ جو ایک سیاسی کارکن ہیں، جو کسی بھی تشدد کے حصہ نہیں رہے ہیں، ان کی بازیابی کیلئے جدوجہد کریں اور سنگت زاہد بلوچ کو زندان سے بازیاب کروانے میں بی ایس او اور ان کی فیملی کی مدد کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔