انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کا مقصد ان کا کیا ہوا وعدہ دوبارہ یاد دلانا تھا کیونکہ حکومت کو 8ماہ گز ر گئے مگر اب تک بی این پی کی جانب سے پیش کئے گئے نکات پر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آرہا ہے ہم نے گوادر کے حوالے معاملات ان کے سامنے رکھے جس میں وہاں کی بجلی ،گیس پانی اور ماہی گیروں سمیت دیگر مسائل شامل ہیں کیونکہ وہاں اب نیاسٹی بننے جارہا ہے ہم نے یہی کہا کہ سینٹ میں گوادر سے متعلق پاس ہونے والے زیزولیشن پر فوری عملدرآمد کیا جائے کیونکہ یہ ہمارا دیرینہ مطالبہ ہے ساتھ میں ہم نے یہ بھی کہا کہ گوادر میں رہنے والوں لوگوں کی اسکیل لیبرلیبر کے لئے یونیورسٹیز اور انسٹیویٹشن 3سے چار بنائے جائے تاکہ وہاں کے لوگ ہنرمند ہوسکے ورنہ کل یہ بہانے بنائے جائیں گے کہ بلوچستان کے لوگ ناخواندہ تھے ہنرمند نہیں تھے اس لئے ہم نے دیگر علاقوں کے لوگوں کے وہاں اہم عہدوں لگایا ہم نے پہلے سے ہی یہ بات وزیراعظم کی سامنے رکھ دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاق کے ساتھ ایک اور ایم او یوپر بھی دستخط کئے تھے کہ بلوچستان اور گوادرجتنے پر پروگرام ہے اس پرفوری عملدرآمدکیا جائے اور ایک سال میں کم سے کم دو بڑے ڈیمز بنانے کا اعلان کیا جائے تاکہ بلوچستان میں پانی کے زیر زمین گرتی سطح پر قابو پایا جائے۔
انہوں نے کہاکہ بی این پی کے جانب سے پیش کئے گئے نکات پارٹی کے نہیں بلکہ بلوچستان کے عوام کے ہیں اس عملدرآمد ہونا چائیے اگر بلوچستان کو ترقی یافتہ یابلوچستان کے لوگوں کو بنیادسہولیات دینے کی فکر ان کو ہے تو اس پر عملدرآمد ہونا چائیے تاہم یہ صرف باتوں کے حدتک یا میڈیامیں بات کرنے تک نہ ہو بلکہ عملی طور پر کچھ دیکھانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال ایسا نہیں لگا رہا ہے کہ 6نکات پر عملدرآمد ہوجائے ہم انہیں موقعہ دے رہے ہے ایک سال تک انتطار کریں گے 70سالوں سے بلوچستان کے عوام کو آثرے پر رکھا گیاجو وعدے کئے گئے اس پر عمل ہوگا یا نہیں یو تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی ترقیاتی پرگروام پر عمل نہیں ہوتا بلوچستان کے مایوسی ختم نہیں کی جارہی ہے 70سال سے بلوچستان کو انفراسٹرکچر پانی کا مسلہ بجلی کی فراہمی سکول کالجز اور بے روزگاری کے خاتمے کے لئے آج تک تو کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ جام کمال کی حکومت کے خلاف نہ ہے اور اترے ہیں ہماراموقف ہے کہ جو حق حکومتی ارکان کہ وہی اپوزیشن ارکان بھی ہو کیونکہ اپوزیشن ارکان بھی عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر اسمبلیوں تک آئے ہے اس لئے فنڈز یا ترقیاتی عمل میں اپوزیشن کو نظرانداز کرنا درست عمل نہیں ہے ۔