بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر فوج کے حوالے کیا جارہا ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ریکو ڈک سونے کے ذخائر کے منصوبے میں دلچسپی رکھتی ہے یہ دعوی غیرملکی خبر رساں ایجنسی نے اعلی سرکاری حکام کے حوالے سے کیا ہے ۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کی ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں واقع سونے اور تانبے کے ذخائر نکالنے کے منصوبے میں پاکستان کی فوج کا ذیلی ادارہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن گہری دلچسپی رکھتا ہے۔
خبر کے مطابق یہ منصوبہ اس وقت اربوں ڈالر کے عالمی ثالثی کے ایک مقدمے کے باعث تاخیر کا شکار ہے جس میں حکومت پاکستان کے خلاف آسٹریلیا، کینیڈا اور چلی کی کمپنیوں کا کنسورشیم فریق ہے ۔
رائٹرز نے اپنی خبر میں دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اس منصوبے کے حوالے سے جب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج حکومت کی سفارش پر ہی ریکوڈک منصوبے میں اپنا کردار ادا کرے گی، تاہم پاک فوج کے ذیلی ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے پاس کان کنی کی جدید صلاحیتیں موجود ہیں، اس لیے اگر موقع ملا تو ایف ڈبلیو او دیگر مسابقتی کمپنیوں کے ہمراہ اس ریکوڈک منصوبے میں کام کرسکتی ہے۔
خبر کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے رائٹرز کو بتایا کہ پاک فوج دیگر اسٹیک ہولڈرز کی طرح اس منصوبے کے لیے اہم ہے۔
واضح رہے کہ ایران اور افغانستان کے ساتھ لگنے والے بلوچستان کے سرحدی علاقے میں دنیا کے بڑے ذخیروں میں سے ایک ریکوڈک کے ذخائر ہیں جس میں سونے اور تانبے کی بڑی مقدار موجود ہے تاہم پاکستان کو اس منصوبے پر بلین ڈالرز سے زائد کے جرمانے کا سامنا ہے ۔
یہ جرمانہ انیس سو اٹھانوے میں ایک آسٹریلوی فرم سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر لگایا گیا جب حکومت بلوچستان نے ذخائر منصوبے کا ٹھیکہ مزید دیگر دو کمپنیوں کو دے دیا تاہم دو ہزار تیرہ میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے سوموٹو لیتے ہوئے ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے کیے گئے تمام بین الاقوامی معاہدوں کو منسوخ کر دیا تھا۔