’’اکیس ویں صدی میں قومی ریاستوں کا بنناناگزیر ہوچکا ہے۔خاص کر اس خطے میں قومی ریاستیں بننی چاہیے یہاں سندھو دیش بننا چاہیے ،یہاں افغان ہیں انہیں مرضی سے رہنے کا حق دیا جائے ان کی خود مختاری اور ان کی آزادی کو تسلیم کرنا چاہیے یہ وقت اتحادکا ہے۔ چیئرمین خلیل بلوچ کا ٹیگ ٹی وی کو انٹرویو‘‘
ٹیگ ٹی وی: بلوچ نیشنل موومنٹ ہے کیا، اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟
چیئرمین خلیل بلوچ:انیس بھائی! آپ کا اور آپ کے colleagues کا بہت بہت شکریہ۔ بلوچ نیشنل موومنٹ ایک قومی انقلابی پارٹی ہے جس کا بنیادی مقصد بلوچ سرزمین کی آزادی ہے جس آزادی کو 27مارچ 1948کو سلب کر لیا گیا تھا۔
ٹیگ ٹی وی: 27مارچ1948 کو کیا ہوا تھا؟
چیئرمین خلیل بلوچ:27مارچ 1948کو پاکستان نے اپنے نیوی اور اپنے بری فوج کے ذریعے بلوچستان پر یلغار کیا۔ اس سے پہلے اس نے کئی سازشیں کیں۔ ہمارے بلوچستان کے حکمران میر احمد یار خان صاحب کو فورس کیا کہ وہ بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق کر دیں تو بلوچستان کے برٹش طرز کے ایوان بالا اور ایوان زیریں، ان دونوں ایوانوں نے اس بات کو رد کردیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں کرینگے۔ اس نقطے پر ہم متفق نہیں ہیں کہ مسلمانوں کا ایک ملک ہو،اگر مسلمانوں کاایک ملک ہو تو افغانستا ن ہے،ایران ہے دیگر ممالک ہیں۔۔۔
(اس میں deliberation ہوئی تھی اس نے رائے شماری کی تھی اور سوچ وفکر چل ہی رہی تھی لیکن خان قلات نے پھر دستخط کرکے قائد اعظم کے ہاتھ میں رکھ دئیے یہ لو جنابWe are annexing with Pakistan۔ایسانہیں ہے؟ اینکرپرسن)
یہ تو طاقت کے زور پر ہوا تھا. خان قلات کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس سے زبردستی دستخط کروائے گئے تھے جس کا انہوں نے اپنی کتاب میں ذکر بھی کیا ہے اور بلوچ کے جو دونوں ایوان تھے ایوان بالا اور ایوان زیرین، ان دونوں نے رد کیا تھا تو پاکستان کی جو نیول فورس جیونی اور پسنی کی طرف سے حرکت کرکے آئی اور کوئٹہ سے اس کی بری فوج آئی انھوں نے اس طرح بلوچ سرزمین پر قبضہ کیا اور 1948سے لے کر آج تک بلوچ اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔۔۔ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کے اس الحاق کو انہوں نے نہ تسلیم کیا تھا نہ تسلیم کرینگے۔
ٹیگ ٹی وی: ستر سال سے آپ لڑ رہے ہیں ستر سال سے آپ احتجاج کر رہے ہیں ستر سال سے ایک طرح کی مزاحمت جاری ہے آپ کیوں اتنی پُرامید ہیں؟ کوئی بین الاقوامی طاقت کوئی عوامی طاقت آپ کے ساتھ ہے؟ کیاکوئی ایسی امید آپ کو نظر آتی ہے کیا؟ آپ کیاسمجھتے ہیں کہ دنیا میں آج کے دور میں نئی ریاستیں بن سکتی ہیں؟
چیئرمین خلیل بلو چ: دیکھیں! آج کے دور میں اکیسویں صدی میں بیسویں صدی میں کئی ریاستیں بنی ہیں۔ جہاں تک بلوچ کا مسئلہ ہے بلوچ کا جو پاکستان کے ساتھ الحاق ہے وہ برطانیہ کے خواہش کے مطابق ہوا تھا۔ میں کئی دفعہ یہ کہہ چکا ہوں کہ پارٹیشن ایک ایسا اقدام تھا جس کے اس ریجن میں کافی منفی اثرات پڑے۔
برطانیہ افغانستان پر حملہ آور ہونا چاہتا تھا یا سنٹرل ایشاء تک اپنی رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی تو درہ بولان میں بلوچوں نے کافی مزاحمت کی۔ اس کو روکا۔ اس کا مطلب یہ ہے بلوچ برطانیہ کے اس توسیع پسندانہ عزائم (کے سامنے رکاوٹ تھے) کو بلوچ نہیں چاہتے تھے۔ انہیں اس لئے روکا گیا کہ افغانستان ہمارے بہت ہی عزیز اور ہمارے قریبی ہمسایہ اور ہمارے تاریخی تعلقات تھے۔ 1839 کو انہوں (برطانیہ) نے بلوچستان پر عملاََ قبضہ کرنے کی کوشش کی توسپہ سالار خان محراب خان تھے،وہ برطانیہ کی قبضہ گیریت کی پالیسی کے خلاف لڑے۔
ٹیگ ٹی وی: تاریخ کے اوراق سے ہم یہاں تک 1947 کو پہنچے۔ 1947سے 2019 آگیا۔ دنیا کی تمام ریاستوں نے پاکستان کو ایک ریاست تسلیم کیا جس کا بلوچستان حصہ ہے اور اب دنیا مانتی ہے یہ اب پاکستان کے چار صوبے ہیں۔ آپ کہتے ہیں ہم اس سے الگ ہوں گے۔ یہ آپ کا ایک narrative ہے۔ یہ narrative ابھی ہمیں مضبوط دکھائی نہیں دیتا ہے کیونکہ، کیا پاکستان سمیت اس خطے کے تمام تر عوام اس وقت خلیل بلوچ کے پیچھے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے ہیں اوروہ اتنی مضبوط پاور بن گئے ہیں کہ پاکستان کہے جی بالکل ہم ایک ریفرنڈم کرا دیتے ہیں اور آپ چلو الگ ہوجاؤ۔کیاایساسوچتے ہیں کہ آج کی صدی میں ہونے جارہا ہے؟
چیئرمین خلیل بلوچ: دیکھیں! بلوچستان کی جدوجہد کا انحصار اپنی قوم پر ہے لیکن ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ عالمی طاقتوں اور ہمسایہ ممالک سے کہ بلوچستان کی جو جیوپولیٹیکل اہمیت ہیں اور بلوچ قوم کا ایک سیکولر نیچر ہے اور خطے میں قیام امن کے لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ نیشنل ازم کی بنیاد پر بلوچ سرزمین کی آزادی کو تسلیم کیا جائے۔
جہاں تک بات ریفرنڈم کی ہے لوگوں کی ہے اب میں آپ ذرا تاریخ میں چھ سال پہلے جائیں، مئی 2013کو جو الیکشن ہوئے تھے اس الیکشن میں جو ٹرن آؤٹ تھا وہاں تین فیصد تھا۔ یہ ان کا اپنا بیانیہ تھا تو اب دیکھیں دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان کے سابق کٹھ پتلی وزیر اعلی قدوس بزنجو ہیں ان کے جو ٹوٹل ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں وہ 500 ہیں۔ پھر ان کے مد مقابل علی حیدر محمد حسنی نے چیلنج کیا کہ دھاندلی ہوئی ہے تو 250کے قریب یا اس سے زیادہ جعلی نکلے۔ یعنی 200یا 250ووٹ لے کر کوئی وزیر اعلی بن جاتا ہے تو اسے آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
(یہ جوک آف سینچری ہے، اسے ہم مانتے ہیں وہاں پہ ایک ایسا نظام ہے جو کہ دنیا کیا،کوئی بھی ذی ہوش شخص تسلیم نہیں کریے گااور اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں پاکستان میں آپ کی جوتحفظات ہیں جو مطالبات ہیں جو جدوجہد ہے جومزاحمت ہے اس کے نتیجے میں اس کے ردعمل میں Kill and dumpکی پالیسی بھی آئی ہے،آپ کے لوگ لاپتہ بھی ہوئے ہیں۔ا س کے بعد آپ کی تحریک آپ کے لوگوں کا آپ کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے اور اب میرا خیال ہے دنیا کی عالمی طاقتیں Kill and dump پالیسی کو مسترد کرتی ہیں اور وہ اسی وجہ سے عالمی طاقتوں کا آپ کے ساتھ ہمدردی کا رویہ دیکھا جاتا ہے۔اینکرپرسن)
خلیل بلوچ: جی دیکھیں۔ یہ ایک شعوری جدوجہد ہے یہ کہنا کہ جی یہ اچانک ہوئے یا ان کا ہمیں اندازہ نہیں تھا یا ان حالت کا ہمیں ادراک نہیں تھا آج بلوچستان میں جو صورتحال ہے توان کا ہمیں ادراک تھا اور ہمیں آگے بھی کافی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب دیکھیں جو یہ ایک موومنٹ کو کاؤنٹر کرنے کے لئے Kill and dumpپالیسی اپنائی ہے۔بہت ساری چیزیں میڈیا کے سامنے آئی ہیں بہت ساری چیزیں دنیا کے سامنے آئی ہیں یعنی کہ بلوچستان میں، توتک میں،پشین میں،پنجگور میں، ڈیرہ بگٹی میں،مختلف ایریا میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئے ہیں ایک تو یہ ہے۔
دوسرا یہ ہے یہ کہ کوئٹہ سے تیس کلومیٹر کے فاصلہ پر دشت تیرہ میل کا ایک علاقہ ہے یہاں پر ایک قبرستان بنایا گیا ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق گزشتہ چند مہینوں میں 131نامعلوم لاشیں یہاں پہ دفنائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جو مسنگ پرسنز کی ایک بہت بڑی فہرست ہے اور بلوچ نیشنل موؤمنٹ کی قیادت ہمارے قائد چیئرمین غلام محمد اس کے ساتھ ہمارے سابق نائب صدر شہید لالا منیر صاحب، ڈاکٹر منان بلوچ صاحب یعنی ہمارے ہائی پروفائل کے کیڈرز کی، لیڈر شپ کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے ہے، 60یا70 سے زائدہمارے سینٹرل کمیٹی یا کابینہ ممبراں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں تو یہ سارے حربے بلوچ کو روک نہیں سکے۔ وہ بلوچ کی آواز اور جدوجہد کو کاؤنٹر نہیں کرسکے۔یہ طریقہ واردات ہیں۔ پاکستان کا ایک دہشت گردانہ پالیسی ہے۔ یہ ایک دنیا کے سامنے آویزاں ہوچکی ہے۔ دنیا اسے تسلیم کرچکی ہے۔ اب یہ ان (دنیاپر) پر انحصار کرتا ہے کہ وہ ایک دہشت گرد ریاست کو کیسے روکتے ہیں۔
ٹیگ ٹی وی:اب میں آتا ہوں آپ نے کہا آپ کے جو خدشات ہیں وہ اپنی جگہ ہیں، اس کو مانا گیا ہے۔ بی این ایم کا پاکستان کے سیاست میں ایک رول رہا ہے۔اب وہ کہتے ہیں پاکستان کی سیاست میں کچھ لینا دینا نہیں ہیں کیایہ حقیقت ہے کہ پاکستانی سے کوئی تعلق رکھنانہیں ہے؟
چیئرمین خلیل بلوچ: صحیح! پاکستان سے نہ ہم کوئی تعلق رکھنا چاہتے ہیں نہ ہمار اکوئی تعلق ہے نہ کوئی تعلق تھا نہ ہی ہم پاکستانی فریم ورک میں سیاست کی خواہش مند ہیں۔ ہم پاکستان سے الگ، پاکستان کے فریم ورک سے الگ اپنی قومی آزادی کی جدوجہد کو سیاسی طورپر آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہم اسے آگے بڑھاتاجائیں گے۔ اور یہ ہمارا ایمان ہے جس طرح ہمارے قائد غلام محمد بلوچ نے آخری سانس تک جدوجہد جاری رکھا تو یہی جذبہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے ہرایک ورکر میں ہے کہ وہ بلوچستان کی آزادی کے لئے آخری دم تک جدوجہد کرے۔
ٹیگ ٹی وی:آپ کے ہمسائے ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے ان کا کیا کردار ہے اور کیا ہونا چاہیے کیونکہ کئی دفعہ یہ الزام لگا کہ نریندر مودی بھی اپنی تقاریر میں بلوچستان کا آزادی کا ذکر چکا ہے۔ پاکستان نے اپنے باقاعدہ اقوام متحدہ میں ڈوزیئر بھیجے ہیں کہ بھارت اس میں مداخلت کر رہا ہے اس میں کیا سچائی ہے؟
چیئرمین خلیل بلوچ: دیکھیں بھارت نہ صرف خطہ بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس کا سیاسی و اخلاقی فریضہ بنتا ہے کہ وہ اپنے پڑوس میں جو ظلم و جارحیت ہے جو نسل کشی ہے نہ صرف بلوچوں کا بلکہ دیگر قوموں کا۔ یہاں سندھیوں کا، یہاں مہاجروں کا،یہاں پشتونوں کا بھی نسل کشی ہورہا ہے تو انڈیاکو اقدام اٹھانا ہوگا۔جہاں تک بات پاکستان کی ہے،دیکھیں پاکستان کا جو بیانیہ ہے اس سے ہم اتفاق نہیں کرتے کہ یہ کوئی پراکسی وار ہے اب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی حیثیت سے وہ آواز اٹھاتی ہے تویہ اس حق ہے،اس کافرض ہے۔ اب پاکستان اس کو مداخلت کہتی ہے۔
لیکن دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں ہمارا سب سے قریبی اورسب سے اہم ہمسایہ افغانستان ہے، افغانستان میں پاکستان کی مداخلت سے پوری دنیا واقف ہوچکا ہے۔ پاکستان نے سرتاج عزیز کی شکل میں، شاہ محمود قریشی کی شکل میں ہو یادیگر کی صورت میں انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ہمارے یہاں کون کون بستے ہیں کس کی خاندان ہیں کس کوہم طبی اورسفری سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ سب سے بڑی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان کے وزیر اعظم کی ایک بیان آئی تھی کہ افغانستان میں امن کے لئے ضروری ہے کہ وہاں نگران حکومت بنائی جائے۔
دیکھیں آپ اس سے کیا تصور کرتے ہیں اور ایک ایسی ریاست اور ایک ایسی ریاست کے حکمران کسی پہ انگلی اٹھائیں کہ آپ نے بلوچوں کے حق میں بات کیوں کی ہے؟
یہاں بلوچوں کا جینوسائیڈ ہورہا ہے۔ یہاں کیمیائی ہتھیار استعمال ہوتے ہیں۔ کلسٹر بم استعمال ہوتے ہیں۔ جیٹ بمبار ی کرتے ہیں۔ بلوچستان میں میزائل داغے جارہے ہیں۔بلوچستان میں عورتوں اور بچوں کو پابند سلاسل کیا گیا ہے۔ بلوچستان میں ہر قدم پر ہر منٹ اور ہر سکینڈ میں انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے۔
دیکھیں یہ جو دشت تیرہ (میل)کا قبرستان ہے بلوچستان کی تو اتنی آبادی نہیں ہے۔ بلوچستان کے جو مسنگ پرسنز کے کسیز ہیں ان کے لواحقین احتجاج کررہے ہیں۔ ان کا ڈی این اے نہیں ہوسکتا کہ یہ لاش کس کی ہے۔ یہاں اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ ان جتماعی قبروں میں کا یہ عالمی اداروں کا فرض نہیں کہ وہ پاکستان پردباؤڈالیں کہ وہ ڈی این کروالے؟
یہ جو لوگ برف باری میں،بارشوں میں یخ بستہ ہواؤں میں کوئٹہ میں اپنے پیاروں کے لئے احتجاج میں بیٹھے ہوئے ہیں ان کو یہ کم ازکم معلوم ہو ان کے جو بیٹے ہیں ان کے جو بھائی ہیں یا کسی کا شوہر ہے یہ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟
چیئرمین خلیل بلوچ: دیکھیں انیس بھائی! چین کو اس جنگ کا بخوبی اندازہ ہے چین نے خود ستر سال قبل ماؤزے تنگ کی قیادت میں برطانیہ اور جاپان کی خلاف جنگ لڑی تو چین کو اس بات کا ندازہ ہے۔ بلوچ اس جنگ میں چین کے خلاف لڑے گی۔ اب یہ ایک بات چین ہویا کوئی بھی دوسرا جو بلوچ قومی مفادات سے ہم آہنگ نہیں ہوگا وہ بلوچ سرزمین کو اپنی کالونی کی نظر سے دیکھے گا جوبلوچ قوم کی مرضی اور منشا کے خلاف برخلاف وہاں اپنے نیول بیس قائم کرے گایا اپنی افواج تعینات کرے گا یادنیا کو کوئی بھی طاقت ہو وہ بلوچ مرضی اور منشی برخلاف میں اپنی ایک کالونی بنانے کی جو توسیع پسندانہ پالیسیاں ہیں تو بلوچ کی سرزمین ہے تو بلوچ اپنی زمین کی آزادی کے لئے اس کی خلاف لڑے گی۔
چین یا کوئی اوراپنی فوج بھیجے تو بلوچ کو اپنی آزادی کے لئے لڑنا ہے۔بلوچ کبھی بھی اس بات سے خائف نہیں ہوگا کہ چین دنیا کا سب بڑا سپر پاؤر ملک ہے وہ آئے گا تو بلوچ کو خاموش ہونا چاہیے یا بلوچ مزاحمت نہیں کریں گے یا بلوچ اس کی مذمت نہیں کرے گا یا بلوچ کمپرومائزنگ پوزیشن میں جائیں گے۔یہ ساری خام خیالیاں ہیں۔
یہ ایک کائناتی سچائی ہے کہ قومیں جہاں اپنی آزادی کی جدوجہد کاآغازکرتی ہیں وہاں اس کایہ نتیجہ نہیں رکھاجاتاکہ جی یہاں چین آیا ہے یا کوئی اور۔۔۔ دیکھیں ویتنام نے امریکہ کے خلاف،فرانس کے خلاف،یادنیا میں بڑی بڑی طاقتوں کے خلاف مظلوم قوموں نے جدوجہد کی ہے۔
ٹیگ ٹی وی: جب میں پیچھے ماضی میں جاتا ہوں،پرانی خبروں کو دیکھتا ہوں کہ پہاڑوں میں آپریشن ہوا،اتنے دہشت گرد مرے۔یہ ملک غدار لوگ ہیں اس بارے میں ہم خبریں پڑھتے رہے پھر یہی سلسلہ کراچی میں روا رکھا گیا۔ وہاں بھی ٹارگٹ کلر دہشت گرد کی اصطلاح رکھی گئی اور ان کو بھی غدار ڈ کلیئر کیا گیا۔ اب پشتون بیلٹ کو کنارے سے رکھا گیا ہے یہ بھی دہشت ہیں یہ بھی غدار ہیں۔یہ بھی محب وطن نہیں ہیں۔
ٹیگ ٹی وی: یکساں خاکہ لاگوکیاگیا اور پاکستان کی تین بڑی قومیتوں کو کارنر کردیا ہے بظاہر وہ اب خود کارنر ہورہے ہیں،اب جو نام نہاد محب وطن طبقہ ہے اور محب وطن اصل میں وہ ہے جوملک کو سنبھال نہیں سکا اور 1971 میں ملک کو توڑ دیا۔ آنے والے دنوں میں ان کی جو حرکتیں ہیں وہ بھی کوئی ایسی نظر نہیں آرہے ہیں کہ جس سے یہ بچ پائے۔آپ کیسے دیکھتے ہیں کہ یہ تین مختلف سکرپٹ تین قوموں پہ اپلائی ہوئے کیا یہ وقت نہیں آگیا ہے اب یہ تینوں مل کر ایک آواز ہوکر اپنے حق کے لئے آواز اٹھائیں؟
چیئرمین خلیل بلوچ:ہم اس وقت کا کافی عرصے سے منتظر رہے ہیں کیونکہ بلوچ کا، بلوچ نیشنل موومنٹ کا بیانیہ رہا ہے کہ جودہشت گرد اور دہشت گردی کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، وہ دراصل پاکستان ہے اور وہ ریاستی دہشت گردی کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی،وسائل اورجغرافیہ پر قابض ہونا چاہتی ہے133اب یہی اسکرپٹ ہے۔ اب دیکھیں پاکستان نے بلوچستان پر جبراََقبضہ کیا تو ایک دو مہینے کے اندر آغا عبدالکریم خان نے الحاق کے خلاف جدوجہد شروع کی اور تسلسل جاری رہا۔ آپ نے 1971کا ذکر کیا۔ بنگلہ دیش گیا تو آپ دیکھیں بنگلہ دیش کی جانے کی وجوہات کیا ہیں۔ وہ اکثریت تھا، اسے قبول کر لینا چاہیے تھا لیکن پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ وہ قابض ہے وہی تمام اقوام پراپنی لاٹھی چلانا چاہتا ہے۔ یہ سلسلہ اب مہاجروں پہ، سندھیوں پہ، پشتونوں پہ آیا ہے تو بلوچ واضح ہیں کہ وہ پاکستان کا حصہ ہیں اور نہ حصہ رہنا چاہتے ہیں۔
بلوچوں کی اپنی ایک تاریخ ہے جس سے پوری دنیا واقف ہے۔ پاکستان سے پہلے بلوچستان کی آزادی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ 11اگست 1947کو برطانیہ نے،جناح نے،ہندوستان کے رہنماؤں، نہرو اور گاندھی نے اسے تسلیم کیا ہے تو اب یہ ان قوموں پرانحصارکرتاہے کہ وہ پاکستان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہیں پاکستان کے اندر رہ کر وہ کچھ کرنا چاہتے یا وہ پاکستان سے الگ اپنی تشخص (چاہتے ہیں)
دیکھیں ہمارا یہ ماننا ہے کہ اکیس ویں صدی میں قومی ریاستوں کا بنناناگزیر ہوچکا ہے۔خاص کر اس خطے میں قومی ریاستیں بننی چاہیے یہاں سندھو دیش بننا چاہیے سندھ میں رہنے والے لوگ ہیں۔یہاں جو افغان ہیں انہیں مرضی سے رہنے کا حق دیا جائے ان کی خود مختاری اور ان کی آزادی کو تسلیم کرنا چاہیے یہ وقت اتحادکا ہے۔
ٹیگ ٹی وی: یہی میرا سوال ہے یہ جو مظلوم قوموں کی اتحاد آپ نے بات کیا ان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں یہ الطاف حسین صاحب نے رکھ دیا ہے کہ میں حق خودرادیت کی بات کرتا ہوں، رائے شماری کی بات کرتی ہوں جس کو جس کے پاس رہنا چاہیے انہوں ایک مثال بھی دی امریکہ کے 52صوبے ہیں اورautonomy کے ساتھ رہتے ہیں وہ بھی ایک شکل بن سکتا ہے تو ڈائرکشن اسی طرف جارہی ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ کے بھی رابطے بھی ہوں گے ان کے رہنماؤں سے،الطاف حسین سے۔آپ کی اس بارے میں کوئی ڈسکشن ہوئی ہے؟
چیئرمین خلیل بلوچ: جی ہاں!الطاف بھائی سے ہماری بات چیت ہوئی ہے سندھی لیڈر ز سے ہماری بات چیت ہوئی ہے ہم چاہتے ہیں یہ بات چیت آگے بڑھے۔
اب آپ نے حق خودارادیت کا اصطلاح استعمال کیا جس کا الطاف صاحب نے اپنے ایک بیان میں ذکر کیاتھا۔ دیکھیں حق خودارادیت کا پوزیشن کیا ہے یا اس اصطلاح کو کس طرح روندا گیا ہے۔اب پاکستان سوویت یونین نہیں کہ جواپنی آئین میں یہ حق دیتا ہے۔
اب حق خودارادیت پر اقوام متحدہ کو ایکشن لینا ہوگا۔ میں سمجھتاہوں یہ اقوام متحدہ کی ذمہ دار ی ہے کہ وہ وہاں پہ بسنے والے اس حق کو تسلیم کرے اور یہ تسلیم کرے کہ بلوچستان ایک مقبوضہ علاقہ ہے۔ سندھ متنازعہ بن چکاہے۔ مہاجر مارے جارہے ہیں وہ پاکستان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے۔اب ایسابیانیہ اقوام متحدہ کی طرف سے آتا ہے تو اس پر بحث (ہوسکتاہے)یا اس کے نگرانی میں ہوگی لیکن پاکستان کی فریم ورک میں رہ کر حق خودارادیت کا مطالبہ کرنا میں سمجھتا ہوں کہ ایک بار پھر خود اور اپنے قوم کواس کھائی میں پھینکنے کا مترادف ہوگا تو آزادی بلوچ نیشنل موومنٹ کا بنیادی اساس ہے آزادی ہماری آئین کا بنیادی اساس ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان قوموں کوبراہ راست اپنی آزادی کی بات کرنی چاہیے۔پاکستان ایک ایسا ملک اورایسی جمہوریت نہیں ہے جہاں پرکوئی یہ توقع کرے ہمیں ہماری حق خودارادیت کا حق دیا جائے۔
آپ دیکھیں الطاف حسین صاحب ایم کیو ایم کے بانی قائدہیں۔ گزشتہ 35سالوں سے وہ قیادت کرتے آرہے ہیں۔ ان کا اپنی قوم میں عزت ہے۔ یہ کو ن سی جمہوریت ہے کہ وہاں الطاف بھائی کے پوسٹر لگانے، میڈیا کو تشہیرکرنے، لوگوں سے مخاطب ہونے کی اجازت نہیں ہے تو ایک ایسے پاکستان میں جہاں ایم کیوایم کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش اور سازش کی جاتی ہے، جہاں فاروق ستارکے ذریعے ایم کیوایم پاکستان بنایاجاتا ہے یا مصطفی کمال ذریعے پاک سرزمین پارٹی بنایا جاتا ہے۔ نائن زیروپہ جوہوا، وہاں مہاجروں کے ساتھ جو ہوا،، تو کہنے کا مقصد یہ ہے ایسی ریاست سے اس طرح کیexpectation(توقعات) نہیں کرنی چاہیے۔
ٹیگ ٹی وی: آپ بالکل درست فرما رہے ہیں کہ ریاست نے بہت غلطیاں تو کردی ہے اور ذمہ داری انہی کی ہے میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ جو بڑا ہوتا ہے اس کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوتا ہے لیکن آپ نے بات کی فاروق ستار کی، مصطفی کمال کی اور دھڑے بندیاں۔ یہ part of script ہیں لیکن آپ کے ساتھ بھی کہیں نہ کہیں عمل ہورہا ہے جو آپ کے بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑیاں بنی بنائی گئی ہے۔ وہ اپنے آپ کو ریپریزینٹ بھی کررہے ہیں۔ عالمی اداروں میں بھی، سوشل میڈیا پہ بھی۔کلیئر پکچر بتائیے گا کہ اس وقت بلوچوں کی رہنمائی کون کررہا ہے؟
خلیل بلوچ: بلوچوں کی رہنمائی کی بات ہے دیکھیں ہمارا ایک بالکل واضح موقف ہے اور رہا ہے کہ بلوچوں کی رہنمائی یا بلوچوں کی قوت بلوچ قوم ہے اور اس کوادارتی بنیادکرناچاہئے۔
ہم تاریخ کو دیکھتے ہیں۔ آغا عبدالکریم خان ایک جدوجہد کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں 70 میں یا 50 میں نوروز خان کی شکل میں تحریکیں چلتی ہیں ان تحریکوں کو کاؤنٹر کیا جاتا ہے یا یہ تھم جاتی ہے۔ جنرل ضیا کے زمانے میں عام معافی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی compensation دی جاتی ہے وغیر ہ وغیرہ تو ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے قائدین نے بلوچ نیشنل موومنٹ بنائی اور بلوچ نیشنل موومنٹ بلوچوں کی نمائندہ جماعت ہے، بلوچوں کی قومی انقلابی پارٹی ہے اوراس کی جڑیں بلوچ قوم میں مضبوط ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ جو آپ نے ذکر کیا یہ ایک طریقہ واردات ہے کاؤنٹر کرنے کا،کمزور کرنے کا، ڈیوئڈ اور رول کرنے کا۔ تو یہ ہر جگہ ہوتی ہیں تو بلوچوں کے ساتھ بھی ایسا ہواہے،ہورہا ہے۔ کچھ حلقے اس جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کے لئے یا اس کو ختم کرنے کے لئے کوشان ہے۔ لیکن ہمارا یہ کہنا ہے، ہمارا یہ ماننا ہے کہ جہاں لوگوں کے ساتھ، عوام کے ساتھ آپ کے نظریاتی، فکری اور روحانی رشتے ہوں تو انھیں کوئی ختم نہیں کرسکتا۔ 2014 کو شہید ڈاکٹر منان کابینہ میں سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے تھے تو ان کی شہادت ہوئی۔ میں بھی ایک انسان ہوں طبعی موت مرسکتا ہوں اور میرا ایک دشمن بھی ہے وہ مجھے ختم کرناچاہتاہے۔ ہماری پارٹی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہم نے اپنی پارٹی کی بنیاد اس طرح رکھی ہے کہ وہ کسی پر انحصار نہیں کرتی۔ یہ شخصی نہیں ادارتی بنیاد رکھتاہے تو ادارتی بنیادوں پر بنی کسی پارٹی کو ختم نہیں کیاجاسکتا۔
ٹیگ ٹی وی: پچھلے دنوں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ صاحب نے ایک ٹویٹ کی کہ terrorist attacks keep increasing in balochistan. The target killing of six law enforcment agencies personal ”insurjawal” strongly is condomnable and alarming this new way of terrorism in Balochistan needs to stop.
Patronizing millitancy for short time gain no work any more.
یہ ٹویٹ دیکھ کر آپکو بُرا تو نہیں لگی کہ اس نے یہ ٹویٹ کی اور بلوچستان میں دہشت گردی کا حوالہ دیا۔
خلیل بلوچ: مجھے بالکل بُرا لگا۔۔۔ مجھے بالکل برا لگا کیونکہ جو سب سے بڑا دہشت گردہے آپ اس کے ہمنوا ہیں۔ آپ اس کے پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔آپ کو کیوں نظر نہیں آتی ہے یہاں پر۔
دیکھیں محسن داوڑ صاحب کی جماعت ہے یا ان کی جو تحریک ہے،انھوں نے بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپس میں آکر اظہار یکجہتی کا اظہار کیاہے ہم نے ان ک…….شکریہ ادا کیا ہے لیکن آپ دیکھیں یہ جو لفظ دہشت گرد استعمال ہوتا ہے قطعاََ میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ کہیں انسانوں کا قتل ہو لیکن آپ دیکھیں کہ پشتونوں کو کون مار رہا ہے؟حال ہی میں پروفیسر ارمان لونی صاحب کا قتل ہوا تھا۔
ٹیگ ٹی وی: آپ اپنی بات جاری رکھیے گا لیکن میں تھوڑا سا وضاحت کروں کیونکہ ابھی میری بات ہوئی ہے پشتون رہنماؤں سے علی وزیر سے بات ہوئی ہے انھوں نے اس کابیک گراؤنڈ یہ بتایا ہے کہ لیویز کا جو اسٹاف ہوتا ہے وہ سارے وہاں کے مقامی پشتون غریب لوگ ہوتے ہے اور وہ اپنا کام کرتے ہیں۔علاقے میں چھوٹا موٹا سیکورٹی کا کام کرتے ہیں ان کووہاں کے پراکسیز کے شکل میں جو دن میں فوج کے یونیفارم میں ہوتے ہیں اور رات کو بدل کے آتے ہیں اور پروکسیز کی چاہے وہ القاعدہ ہو، داعش ہویا طالبان کے شکل میں یا تحریک طالبان ہو، وہ آکے ان کو مارتے ہیں اور جب یہ ٹویٹ کی محسن نے اس نے کہا یہ جو دہشت گردی بند ہونا چاہئے۔آپ جس دہشت گردی کی بات کررہے ہیں ان کا اشارہ اس طرف نہیں تھا،آپ جاری رکھیں پلیز
چیئرمین خلیل بلوچ: دیکھیں میں نے کہا کہ ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ کہیں انسانوں کا قتل ہو۔ یہ جو اقدامات ہوتے ہیں آپ ان کے وجوہات کی تشخیص کیوں نہیں کرتے؟
دیکھیں افغانستان ایک قدیم، عظیم تہذیب اور ثقافت کا مالک ہے۔ افغان قوم کی ایک قدیم تاریخ ہے اور بلوچوں کی 11 ہزار سالہ تاریخ ہے مہر گڑھ میں اسکے آثار ہیں۔ مطلب بہت قدیم تاریخ ہے بلوچوں میں 9 ہزار سال پہلے ایک زرعی نظام موجود تھا ان کی جیومیٹری موجود تھی۔ان کاتعمیرات وغیرہ۔ تو آپ دیکھیں کہ پاکستان کیا کررہا ہے۔ آپ اقوام متحدہ کے قوانین کو دیکھیں۔ یہاں جو جانبدارانہ تجزیے ہیں۔۔۔ پاکستان کے کوئی سابق آفیشلز ہیں مجھے ان کا نام یاد آرہاہے، انھوں نے پلوامہ حملے کے بعد ایک آرٹیکل میں اقوام متحدہ مختلف ایکٹس کا حوالہ دے دے کر جیش محمد کی اس کارروائی کو جسٹیفائی کیا کہ وہ صحیح ہیں۔(یعنی جیش محمد نے صحیح کیا؟اینکرپرسن)
وہ کہہ رہے ہیں کہ جیش محمد نے صحیح کیا ہے۔ اقوام متحدہ کا قانون یا اقوام متحدہ کا چارٹر ان کو اس بات کی اجازت دیتا ہے لیکن دوسری طرف بلوچ دہشت گرد ہیں، پشتون دہشت گرد ہیں۔ مہاجر غدار دہشت گرد ہیں، سندھی دہشت گرد ہیں تو یہ ایک جانبدارانہ تجزیہ ہے۔ ایک جانبدارنہ بیانیہ ہے جو ان کی طرف سے آیا ہے؟
بات یہ ہے کہ اس خطے میں پاکستان کا جو رول رہا ہے پاکستان جس طرح سے اس خطے کو متاثر کررہا ہے۔ آیا وہ وہاں پرretaliateنہیں کریں گے؟ وہاں retaliationsنہیں ہوگا۔
اگر(retaliation) ہوں گے تو انھیں دہشت گرد قرار دیا جائے گا؟ کیوں، آپ اُن ہزاروں لوگوں کو دیکھیں،واقعات ہوتے ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں جو لیویز فورس ہے یا پیرا ملٹری فورسز ہو یا ملٹری ہو۔ یہ تمام ریاست کے ٹولز ہوتے ہیں جو ریاست کی پالیسی کو ریاست کی دہشت گردی کو محکوموں پر اپلائی کرتے ہیں لیکن میرے کہنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ ہر بندہ کھڑا ہوکر مارنا شروع کردے۔
ٹیگ ٹی وی:۔ آپ کس طرف جا رہے ہیں،بلوچستان کو آپ کیا دیکھ رہے ہیں۔ کتنے عرصے تک یہ جنگ مزید چلے گی کیا اس کا مستقبل ہے؟
خلیل بلوچ: پاکستان کے مستقبل کی آپ بات کررہے ہیں؟
ٹیگ ٹی وی: نہیں آپ کے جو وژن ہے اور امید یں ہیں اس کے مستقبل کی بات کررہا ہوں۔
چیئرمین خلیل بلوچ: دیکھیں!میں مکمل پر امید ہوں، اپنی قومی جدوجہد کے حوالے سے،اور میں پر امید ہوں پاکستان کا جو ایک منفی کردار رہا ہے نہ صرف اس خطے میں بلکہ پوری دنیا میں، آج وہ تنہا پڑ چکا ہے اس کا کسی پڑوسی ملک کے ساتھ یا امریکہ جو ان کااہم اتحادی تھا اب ان کی نہیں بن رہی ہے کیونکہ پاکستان نے کہا کچھ اور کیا کچھ۔
میں آپ کو سادہ طور پر پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے آپ وسعت اللہ خان کی بات سے بات میں جو’بخشو کی کہانی‘ ہے آپ اُسے سنیں آپ کو پاکستان کا مستقبل صاف نظرآئے گا۔ مجھے آنے والے وقتوں میں پاکستان نظر نہیں آرہا، پاکستان کا شیرازہ بکھرنے والا ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام محکوم قوموں کو اکھٹے ہوکر گرتی ہوئی دیوار ایک دھکا اور دو۔
انیس فاروقی: بہت بہت شکریہ خلیل صاحب یہ آپ کے خیالات تھے ضروری نہیں ہم ان سے اتفاق بھی کریں۔