پاکستان کی مَحمولی گُت – میرک بلوچ

228

پاکستان کی مَحمولی گُت

میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جدلیاتی اور سائنسی حوالے سے تضادات کو سمجھنا، حقائق کے درست پہلوؤں کے گہرائیوں کو آشکار کردیتا ہے۔ اور مسائل کے جڑ تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے، کیونکہ اس کے علاوہ باقی ساری چیزیں لغویات اور بےبنیاد بحث و جاہلانہ ٹامک ٹوئیاں ہوتے ہیں۔

خطے کی موجودہ صورتحال نہایت تیز رفتاری سے اثر پذیری سے گذر رہے ہیں۔ ان تضادات کا ابھرنا لازمی تھا، اس کا پس منظر تو بہت ہی وسیع ہے، لہٰذا اس پر مذید روشنی ڈالنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ یہاں صرف موجودہ صورتحال پر کچھ گذارشات کرنا مقصود ہے۔ طالبان اور usa کے درمیان مذاکراتی عمل میں دنیا کے سامنے بہت سی چیزیں مذید واضح ہوئیں ۔ اور اس کے ساتھ پاکستانی ریاستی تضاد بھی کھل کر سامنے آئے ۔ چونکہ یہ مذاکرات USA کے مرضی کے مطابق ہورہے ہیں۔ اور ان مذاکرات کا نتیجہ بھی USA کے منشا و مقصد کے مطابق ہی برآمد ہوگا۔ لہٰذا آنے والے وقت میں پاکستانی ریاست کے لیئے کچھ بھی نہیں بچ پائے گا بلکہ اس ریاست کو انتہائی خطرناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس ساری صورتحال میں پاکستانی ریاست کی اضطرابی کیفیت، پلوامہ اور ایران میں شدت کے ساتھ رونما ہوا۔ مگر یہ کاروائیاں انتہائی پر خطر واقع ہوئیں، جس کا اندازہ پاکستانی حکمرانوں کو نہ تھا۔ ان کاروائیوں کے دو مقاصد تھے، ایک ہندوستان اور ایران کے افغانستان میں باہم مفادات کو چیلنج کرنا اور کشمیر میں ہندوستان کو الجھا کر زبردستی اپنے مقاصد حاصل کرنا۔ دوئم یہ کہ طالبان اور USA کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کریں۔

مگر ساری منصوبہ بندی الٹ ہو گئی اور گلے پڑی کیونکہ بین الاقوامی برادری نے شدید مذمت کے ساتھ ہندوستان کی بھرپور حمایت کی حتیٰ کہ چین نے( جو کہ پہلے سے سی پیک کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے ) بھی مذمت اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس حملے کا ہندوستان نے کھل کر جواب دیا اور اس میں اس بات کو واضح کیا گیا کہ اب اس طرح نہیں چلے گا۔ اس کیفیت میں پاکستانی حکمران بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے اور یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستانی جنرل صرف نہتے اور معصوم لوگوں اور عام عوام پر اپنی فوجی قوت و طاقت استعمال کرتے ہیں۔ اور اپنے مفادات کے لیئے ڈالر اور درہم لیکر کرائے پر دستیاب ہوتے ہیں۔ شاعر انقلاب حبیب جالب نے برسوں پہلے کہا تھا
” سرحدوں کی نا پاسبانی کی
ہم سے ہی داد لی جوانی کی “

موجودہ حالات میں یہ بات واضح ہے کہ پاکستانی ریاست اپنی داخلی بحران کے ساتھ بین الاقوامی حوالے سے بلکل یک و تنہا ہے۔ موجودہ صورتحال نے بہت سی چیزوں کو آشکار کیا۔ OIC کے یو اے ای میں ہونیوالے اجلاس، جس میں ہندوستان ممبر کی حیثیت سے شامل تھا۔ ہندوستانی کاروائیوں کی سوائے ترکی کے کسی نے بھی مذمت نہیں کی اور کشمیر کے حوالے سے اجلاس کے اعلامیئے میں کوئی بات شامل نہیں کی گئی۔ علاوہ ازیں بلوچ گل زمین پر ظلم و ستم کی انتہا کرنے والی قابض فوج ہندوستانی کاروائی کے بعد اپنے کیمپز اور چیک پوسٹ ایسے چھوڑ کر غائب ہو گئی جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ ان واقعات سے پاکستانی حکمرانوں اور جرنیلوں کا بھرم دنیا کے سامنے کھل گیا۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ پاکستانی جرنیلوں کو اپنے نجی اثاثے اور دولت جو انھوں نے جمع کررکھی ہے، جن کے بیرون ملک ڈالروں کے اکاونٹس ہیں ان کی حب الوطنی اور جذبہ ایمانی صرف مظلوم قوموں کی سرزمین پر قبضہ کرکے ان کے وسائل کو لوٹنے کے سوا کچھ نہیں اور ڈالروں کے عوض ان کی حیثیت صرف کرائے کے لیئے ہے۔

اب یہ بات مستقبل میں شاید پنجابی عوام کو یہ احساس دلادے کہ ان بوڑھے جرنیلوں کو صرف دولت اور دوسرے مظلوم قوموں کے وسائل کی ضرورت ہے۔ شاید پنجاب کے عوام کو یہ احساس ہوجائے کہ یہ جرنیل ان کے بچوں کو اسلام اور پاکستان کے نام پر فوج میں بھرتی کرکے اپنے خودغرضانہ مفادات کے لیئے بلوچ اور دیگر قوموں کے بچوں کو غائب کرکے شہید کرکے اور مظلوم و محکوم قوموں کے وسائل لوٹنے کیلئے بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ اور خود یہ جرنیل محلوں میں بیٹھ کر عیش و عشرت کی زندگی گذارتے ہیں۔ اور شاید پنجابی عوام کو یہ احساس ہوجائے کہ ان کے حکمران و جرنیل ان کے بچوں کو صرف اور صرف موت کی مشین بناکر کنٹرول کرتے ہیں۔ شاید پنجابی عوام کو احساس ہوجائے کہ بلوچ قوم کی سرزمین بلوچستان پر بلوچ قوم کا حق ہے اور بلوچستان کی آزادی سے پنجاب کے عوام کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اگر نقصان ہوگا تو صرف ان حکمرانوں اور بزدل جرنیلوں کو جن کی جائیدادیں اور اولادیں باہر ہیں۔ جب کہ عام پنجابی عوام کی ساری چیزیں پنجاب میں ہیں ۔ جیسا کہ شاعر انقلاب حبیب جالب نے برسوں پہلے کہا تھا کہ ” جاگ میرے پنجاب” کیونکہ اب تک باقی اقوام کے بچے مررہے تھے اور پنجابی سکون سے بیٹھے تھے، لیکن انکی خاموشی و بے حسی کی وجہ سے یہ آگ اب انکے آنگن تک پہنچ چکا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔