پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کے لیے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں عالمی نشریاتی ادارے سے خصوصی گفتگو میں بلاول نے کہا کہ اس وقت ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال ایک بحران کی شکل اختیار کر رہی ہے اور اس طرح کے حالات میں قانون کی بالادستی ضروری ہے۔
انھوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ کا مضبوط ہونا ضروری ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف جیسی سیاسی جماعتیں پارلیمان کو کمزور کر رہی ہیں۔
اُن کے مطابق کئی ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ایک مخصوص ذہنیت کی سوچ کو فروغ مل رہا جو کہ آئین کے متصادم ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہیہ بدقسمتی ہے کہ سیاست دانوں نے پارلیمان کو اہمیت نہیں دی۔ پچھلے دور میں مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم پارلیمنٹ نہیں آیا کرتے تھے اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت، پارلیمان اور قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کیا‘۔
انھوں نے عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بحیثیت وزیر اعظم وہ اب بھی پارلیمان کو اہمیت نہیں دے رہے۔ جس سے جمہوریت، پارلیمنٹ اور قانون کی حکمرانی متاثر ہو گی۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جمہوری نظام میں عدلیہ کا اہم کردار ہوتا ہے، لیکن اعلیٰ عدلیہ کے ججز زیادہ تر سیاسی کام کرتے رہے اور یہ جوڈیشل ایکٹوازم نظام کو کمزور کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بلوچستان سے اسلام آباد تک لاپتا افراد کے اہل خانہ احتجاج کرتے ہیں لیکن اُن کی شنوائی نہیں ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان، عدلیہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس مسئلے کو سنجیدہ لینا چاہئیے اور اس کو حل کرنا چاہیے۔
بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ اُن کی جماعت فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے حق میں نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام قلیل وقتی اقدام تھا اور ملک میں انصاف کے دو متوازی نظام نہیں ہو سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع شخصی آزادیوں اور قانون کی حکمرانی کے لئے خطرہ ہے۔
بلاول کا کہنا تھا کہ متوازی انصاف کے نظام سے انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور اس سے موجودہ عدالتی نظام کی ساکھ متاثر ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مقدمات کے حوالے سے عدلیہ اگر قوانین کو مضبوط کرنا چاہتی تو چیف جسٹس پارلیمان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ انتہا پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کے فلسفے کو تاحال سمجھنے سے قاصر ہیں اور اُن کے خیال میں یہ ریاست کی پالیسی نہیں کیونکہ یہ چیز قومی ایکشن پلان کے خلاف ہے۔
بلاول کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین کو اپنی اصل روح میں بحال کیا ہے اور اُن کی جماعت 1973 کے آئین اور اٹھارہویں ترمیم پر کسی دباؤ کا شکار نہیں ہو گی اور نہ ہی کوئی سمجھوتہ کرے گی۔
انھوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کو سیاسی اور قانونی سطح پر خطرات کا سامنا ہے اور اس سلسلے میں عدلیہ کے بعض فیصلوں سے انھیں مایوسی ہوئی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ سے متعلق ایک سوال پر بلاول نے کہا کہ پلوامہ کے واقعے پر مودی حکومت نے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تاہم جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان کے خلاف جارحیت بھارتی ریاست کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی میں کمی کے لیے حکومتی سطح سے سنجیدہ اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی بات ہو رہی ہے، پاکستان اور افغانستان کو خطے کے لیے امریکہ سے اقتصادی پیکج کی بات کرنی چاہیے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ ملک کے معاشی مستقبل کے لیے بتہرین منصوبہ ہے اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک اس پر اعتراض کرنے کے بجائے اس کا مقابلہ کریں۔
انھوں نے موجود حکومت کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمسایہ ملکوں سے تعلقات بہتر نہیں کیے گئے۔
’ایران پوری طرح ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ افغانستان کو بھی ہم نے پوری طرح اعتماد میں نہیں لیا اور موجودہ حکومت کو چین سے بھی روابط بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔‘
بلاول کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے سیاسی سفر میں اپنی والدہ بے نظیر بھٹو اور اپنے والد آصف علی زاردی، دونوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول نے کہا کہ اُن کے والد کے خلاف غیر ضروری پراپیگنڈہ کیا گیا اور یہ وہی قوتیں ہیں جو جمہوریت کو پنپنے نہیں دینا چاہتیں۔ انھوں نے کہا کہ اُن کے والد اور سابق صدر آصف زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے بوجھ نہیں بلکہ سرمایہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ’ آصف زرداری اصل میں پیپلز پارٹی کے لیے ایک چٹان، ستون اور مددگار ہیں۔ موجودہ پارلیمنٹ میں وہ واحد شخص ہیں جو آج بھی تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک نقطے پر اتفاق رائے پیدا کر سکتے ہیں۔‘