پاکستان بھر میں وکلاء کی دو روزہ ہڑتال شروع

98
File Photo

پاکستان میں نیشنل جوڈیشل کمیٹی کی جانب سے مقدمے کے اندراج سے متعلق قوانین میں ترمیم واپس نہ لیے جانے کے خلاف ملک بھر میں وکلا نے دو روزہ ہڑتال شروع دی ہے۔

بدھ کو ہڑتال کے پہلے روز پاکستان بھر میں عدالتی سرگرمیاں تقریباً معطل رہیں اور لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان بار کونسل کی اپیل پر کی جانے والی ہڑتال کی وجہ قومی جوڈیشل کمیٹی کی جانب سے فوجداری قوانین میں طریقہ کار سے متعلق ترمیم ہے۔

اس ترمیم کے تحت اگر کسی شہری کی درخواست پر متعلقہ تھانہ مقدمہ درج کرنے سے انکار کر رہا ہو یا درخواست گزار تحقیقات سے مطمئن نہ ہو تو اسے اپنی شکایت لے کر متعلقہ ایس پی کمپلینٹ کے پاس جانا ہو گا۔ اگر وہ سمجھے کہ وہاں بھی اس کی شکایت کا ازالہ نہیں ہوا تو اس کے بعد وہ متعلقہ ضلعی عدالت میں پولیس کے خلاف درخواست دائر کرنے کا مجاز ہو گا۔

اس سے قبل درخواست گزار مقدمے کے اندراج سے انکار کی صورت میں براہِ راست عدالت سے رجوع کر سکتا تھا۔

وکلاء اس ترمیم کے خلاف کیوں؟

وکلاء اس فیصلے کو تسلیم کرنے کے حق میں نہیں اور وکلاء قیادت نے اس کے خلاف دو روزہ ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

وکلاء رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی کی یہ تجویز زمینی حقائق کے برخلاف ہے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پولیس کے نظام میں کئی بنیادی نقائص موجود ہیں اور اس نظام سے شہریوں کو زیادہ ریلیف ملنے کی توقع نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تھانہ کلچر کی تبدیلی تک صرف چند صورتوں کے علاوہ یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ پولیس کے اعلیٰ افسران اپنے ماتحت ایس ایچ او کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام کریں گے۔

وکلاء کو یہ بھی اعتراض ہے کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی نے فوجداری قوانین میں تبدیلی کر کے مقننہ کا اختیار استعمال کیا ہے۔ وکلاء کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے ملک میں کئی لاکھ سے زائد مقدمات عدالتوں سے خارج ہو کر پولیس کے پاس واپس چلے جائیں گے جہاں انصاف کا حصول عدالتوں کی نسبت زیادہ مشکل ہے

وکلاء رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس فیصلے سے پولیس کے اختیارات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ دوسری جانب عوام کے لیے انصاف کی راہ میں مزید رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں گی۔

ترمیم کی مخالفت کرنے والے وکلاء کے مطابق ایف آئی آر کا اندراج نہ ہونے کے خلاف شکایت سننے کا اختیار بھی پولیس کو دینا انتظامیہ کو عدالتی اختیارات تفویض کرنے کے مترادف ہے۔

متنازع شق میں کیا ہے؟

پاکستان کے فوجداری قانون کے سیکشن 22-اے کے تحت سیشن اور ایڈیشنل سیشن ججوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی شہری کی درخواست پر پولیس کو ایف آئی آر کے اندراج کا حکم دے سکتے ہیں۔۔

لیکن نیشنل جوڈیشل کمیٹی نے کہا ہے کہ اس طرح کے مقدمات عدالتوں پر بوجھ کے مترادف ہیں۔

اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2017ء سے فروی 2019ء تک سیکشن 22-اے اور آئین کی شق 199 کے تحت ملک بھر کی عدالتوں میں کل 6 لاکھ 61 ہزار سے زائد مقدمات دائر کیے گئے۔

ملک بھر میں عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے نیشنل جوڈیشل کمیٹی نے ان مقدمات کی شنوائی ایس پی کمپلینٹ کے فیصلے سے مشروط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ آئین کی شق 199 کے تحت پاکستان کے شہری آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متعلق کسی بھی شکایت کی صورت میں براہِ راست ہائی کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔

نیشنل جوڈیشل کمیٹی کا مؤقف کیا ہے؟

نیشنل جوڈیشل کمیٹی کے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے اس ترمیم کا مقصد عدالتی اختیارات میں کمی نہیں ہے۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ فوجداری قوانین کی دفعہ 22 اے اور آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹس کے اختیارات میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ تاہم شہری ایسے مقدمات میں عدالتوں سے رجوع کرنے سے قبل سپرنٹنڈنٹ پولیس کمپلینٹ سے رجوع کریں۔

نیشنل جوڈیشل کمیٹی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم ایک کمیٹی ہے جس کے ممبران چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان ہیں۔ اس کمیٹی کا بنیادی مقصد ملک میں عدالتی اصلاحات کا نفاذ ہے۔

اس تنازع پر غیر جانبدارانہ رائے کیا ہے؟

تقریبا تین دہائیوں تک عدالتی امور کی رپورٹنگ سے منسلک اخگر انور اعوان قومی جوڈیشل کمیٹی کے اس فیصلے کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قومی جوڈیشل کمیٹی کی جانب سے فوجداری قوانین کی اس شق میں تبدیلی نہیں لائی گئی بلکہ اس کے استعمال کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا ہے جس کی وجہ عدالتوں پر بے تحاشہ بوجھ ہے۔ اس دباؤ کو کم کرنے کے لئے عدالتوں کو ان انتظامی کاموں سے چھٹکارا دلانا ضروری ہے۔

اس بارے میں پشاور ہائی کورٹ کے ایک بینچ کا فیصلہ بھی ایک نظیر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس میں یہ اصول طے کیا گیا تھا کہ ایف آئی آر کے اندراج میں رکاوٹ پر پولیس کے اعلیٰ افسران سے بھی رجوع کیا جائے اور اگر پھر بھی شہری مطمئن نہ ہو تو اسے انصاف کے حصول کے لیے عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔