بلوچ طلبا اور طلبا تنظیموں سے اپیل کر تا ہوں کہ وہ بلوچ نوجوانوں کی مستقبل کی تحفظ کیلئے اپنی ذمہ داری نبھائیں – کمال بلوچ
بی ایس او آزاد کے سابقہ وائس چیئرمین کمال بلوچ نے ڈائریکٹر آف کالجز کی جانب سے تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے رد عمل میں بیان جاری کرتے ہو ئے کہا ہے کہ بلوچستان پر پاکستان کی قبضے سے لے کر آج تک بلوچوں پر ہر طرح کے غیرانسانی اور غیر اخلاقی مظالم ڈھائے جارہے ہیں مگر بلوچ نوجوانوں نے ہر وقت سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے خلاف چٹان بن کر ہر ظلم و جبر کو خندہ پیشانی سے برداشت کی ہے اور اُس کا مقابلہ کرتے آرہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ ایک قدیم تہذیب و تمدن کے مالک ہیں۔ اپنی وطن، تہذیب و تمدن کی تحفظ کی بنیاد پر سیاست اور جد و جہد کرتے آرہے ہیں۔ پاکستان کی وجود سے پہلے بھی بلوچ نوجوانوں میں یہ شعور تھا کہ وہ تعلیمی اداروں میں اپنے مستقبل کے حوالے سے شعوری جدوجہد میں سرگر م تھے۔ اس کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ بلوچ نوجوان قومی تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں جنہوں نے 1931 کو کوئٹہ میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا تھا۔ بلوچ یہ شعور رکھتے تھے کہ ایک سماج اس وقت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے جب اُس کے جوان اپنی قومی شاخت کو بر قرار رکھنے میں حساس ہوتے ہیں۔
کمال بلوچ نے کہا کہ پاکستان کی وجود میں آنے کے بعد یعنی 1960 کی دہائی میں بلوچ طلبا نے کوئٹہ اور کراچی میں تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹ سیاست کی بنیاد رکھی جو آج ایک منظم شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس سے پاکستانی حکمران پریشان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈائریکٹر آف کالجز نے نہ صرف طلبا سیاست بلکہ فنکشنز (تقریبات) پر پابندی عائد کی ہے۔ یہی سیاست اور تقریبات ہمارے اظہار کا طریقہ ہیں۔ ثقافتی فنکشنوں پر پابندی ہماری شناخت کو مٹانے کی کوشش ہے جسے پہلے سے بندوق کے زور پر بھی مٹانے کی کوششیں جاری ہیں۔
بی ایس او آزاد کے سابق وائس چیئرمین نے کہا کہ بلوچ طلبا نے پاکستانی ون یونٹ کے خلا ف بڑی شعوری انداز میں عوامی شعور پیدا کیا اور اس کیلئے بلوچ طلبا قید و بند کی صعوبتیں سہتے رہے ہیں مگر کبھی بھی طلبا ظلم کے، مظالم کے سامنے سر تسلیم خم نہیں ہوئے ہیں بلکہ مقابلہ کرکے سرخرو ہوئے ہیں۔ آج ان کی تعلیمات کی بدولت ہے کہ بلوچ تحریک کی قیادت بی ایس او کی سابقہ قیادت کر رہی ہے۔ یہ بلوچ طلبا کیلئے ایک اعزاز ہے۔ اس ہی سے بلوچ نیشنل ازم پروان چڑھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ تاریخی حقیقت ہے جب بی ایس او نے 1966 میں انضمام کی تھی تو پہلی سیشن میں پاکستانی حکمرانوں نے اسے تقسیم کرایا جس کے پیچھے پاکستانی نام نہاد قوم پرست تھے جو آج تک طلبا کو اپنی کرایہ دار سمجھ کر کام لے رہے ہیں لیکن وہاں بھی فدا جیسے نوجوان پیدا ہوئے جو دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ 2002 میں ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نے کرایہ دار لوگوں کے خلاف بغاوت کااعلان کیا اور بی ایس او کو حقیقی راہ پر گامزان کیا۔ اس کی وجود ہی حکمران کی نیندیں حرام کرنے کیلئے کافی تھیں۔ پاکستانی حکمران 2003 سے بی ایس او آزاد کے خلاف ریاست کریک ڈاؤن کرتے آرہے ہیں۔ آج بھی بی ایس او آزاد دشمن کا زیر عتاب ہے۔ بی ایس او کے سابقہ چئیرمین زاہد بلوچ، زاکر مجید سمیت سینکڑوں طلبا پاکستانی عقوبت خانوں میں بند ہیں اور سینکڑوں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے ہیں لیکن قومی شعور اور آگاہی پھیلانے کی عزم اور جد وجہد کا راستہ نہیں چھوڑے ہیں۔
کمال بلوچ نے کہا کہ ایک پرامن اور جمہوری طلبا تنظیم اپنے نوجوانوں میں قومی فرض پورا کر تے ہوئے آگاہی پیدا کر رہا ہے۔ بلوچ طلبا کو سمجھنا ہو گا کہ انہیں نوآبادیاتی نظام تعلیم کے خلاف بغاوت کرنا ہے جس سے بلوچوں کی شاخت کو ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔ جب بی ایس او آزاد نوجوانوں کو حقیقی قومی تعلیم اور سیاست کی طرف راغب کر رہا تھا تو پاکستانی حکمرانوں نے بی ایس او آزاد کو 2013 میں باقاعدہ کالعدم قراد دیا جو سراسر غیرقانونی اور غیراخلاقی عمل ہے۔ ایک پر امن طلبا تنظیم کو کالعدم قرار دینا ریاست کی بلوچ دشمن پالیسیوں کا حصہ تھا۔ اس کے باوجود بی ایس او آزاد کا کاروان جاری ساری ہے۔ حال ہی میں ڈائریکٹر آف کالجز ز کی طلبا سرگرمیوں پر پابندی کے خلاف بلوچ طلبا تنظیموں کی یکمشت ہو کر لائحہ عمل تیار کرنا چاہیئے۔ یہ دراصل بلوچستان میں مذہبی شدت پسندی کو مزید توانا بنانے کی ایک کوشش ہے۔ طلبا کا قومی تحریکوں میں ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ بنگالی قوم اپنی زبان کی تحفظ کیلئے کالجز اور یو نیورسٹوں میں انقلاب برپا کرتے ہیں جو بعد میں عوامی شکل اختیار کرتا ہے۔ بوسیدہ نظام تعلیم کے خلاف بغاوت واحد راستہ ہے۔ میں بلوچ طلبا اور طلبا تنظیموں سے اپیل کر تا ہوں کہ وہ بلوچ نوجوانوں کی مستقبل کی تحفظ کیلئے اپنی ذمہ داری نبھائیں اور اس عمل کے خلاف احتجاج کے مشترکہ ذریعہ پیدا کریں۔ پاکستان بلوچ طلبا کی حقیقی سیاسی تعلیم سے خوفزدہ ہے۔ وہ آپ کے مقابلے میں اب مذہبی انتہا پسند وں کو آگے لانے کی کوشش کررہی ہے کیونکہ اپنی فوج کی بندوق سے بلوچ طلبا کی شعور کو روک نہیں سکا ہے۔ شہید حمید اور فدا بلوچ کا فلسفہ اپنا کر ظلم کے خلاف بغاوت کریں۔ ہمیں اس نوآبادیاتی نظام تعلیم سے چھٹکارہ حاصل کر نا ہوگا کیو نکہ یہ سلو پوائزننگ کی طرح ہماری وجود کو ختم کر دے گا۔