بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں برطانوی براڈکاسٹ کارپوریشن ( بی بی سی )کے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور بغیر شناخت دفنانے پر مبنی رپورٹ پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 26 ماہ میں بلوچستان بھر سے131 مسخ شدہ لاشیں بر آمد ہوئی ہیں جن کو بغیر شناخت کے دفنایا گیا جو مِسنگ پرسنز کے اہلخانہ کے لئے باعث تشویش امر ہے اور اس طرح کے غیر انسانی واقعات لاپتہ افراد کے لواحقین کے لیے مزید اذیت کے باعث بن رہے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ملک کی عدالت عظمی نے ناقابل شناخت لاشوں کی ڈی این اے کو لازمی قرار دیا تھالیکن حکومت سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد نہیں کررہی ہے جس کی وجہ سے لاپتہ افراد کے لواحقین میں شدید تشویش اور بے چینی کی سی کیفیت پائی جاتی ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ وزیر داخلہ بلوچستان ضیا لانگو کا مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کے واقعات اور گمنام قبروں کی دریافت کی وجہ ریاست سے تعاون نہ کرنے کو قرار دیکر حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے حالانکہ گزشتہ کئی سالوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی عدم بازیابی کے خلاف وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرکے ریاست اور حکومتی اداروں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ انکے پیاروں کوعدالتوں میں پیش کرکے انہیں انصاف فراہم کیا جائے لیکن ان کی آواز ہمیشہ سنیُ ان سنی کی جاتی رہی ہیں۔
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کئی سالوں سے مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ مسخ شدہ لاشوں کا ڈی این اے کرایا جائے لیکن گزشتہ کئی حکومتیں انکے مطالبات کو رد کرتی آرہی ہیں اور ایسے حالات میں جب بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدہ ہیں مسخ شدہ لاشوں کو بغیر سناخت کئے لاوارث قرار دیکر دفن کرنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور ملکی و غیر ملکی انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہیں۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں سپریم کورٹ پاکستان اور دیگر اعلی اداروں سمیت ملکی و عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان میں انسانی مسخ شدہ لاشوں کی بر آمدگی اور بغیر شناخت دفنانے کے عمل کو سنجیدگی سے لے اور ہنگامی بنیادوں پر ان کی شناخت کے لیے اقدام اٹھائیں تاکہ جن لواحقین کے پیارے ریاستی اداروں کے ہاتھوں غائب ہوئے ہیں ان کو تسلی ہو