میرا مادر وطن اور اس سے وابستہ میرے احساسات – نازل بلوچ

996

میرا مادر وطن اور اس سے وابستہ میرے احساسات

نازل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اپنے سرزمین پر چلوں تو ایسا لگتا ہے جیسے ماں کی گود میں ہوں۔ اپنے پہاڑوں پر جاؤں تو ایسا لگتا ہے جیسے ماں نے اپنی آنچل میں چھپا لیا ہو۔ اپنے وطن کی مٹی کی خوشبو سے ماں کی مہک آتی ہے۔ اپنے باغات میں گھوموں تو لگے دنیا کی جنت تو بس یہی ہے۔ میرے وطن کے کھجوروں کی جو مٹھاس ہے وہ دنیا میں کہیں اور نہیں ہے۔ میرے وطن کے نہروں کا جو ٹھنڈا پانی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ قدرت کا کرشمہ کسے کہتے ہیں، یہ میں نے اپنے وطن اپنے بلوچستان کو دیکھ کر جانا۔ اپنے مادر وطن میں سب کچھ اپنا ہے, ایک ایک چیز کے ہم وارث ہیں۔ اپنے وطن کا ہر ایک باشندہ اپنے جسم کا حصہ لگتا ہے۔ وطن کی فضاؤں میں ایک الگ سا سکون ملتا ہے۔ اپنا وطن ہے تو ہم ہیں۔ کبھی پردیسیوں سے پوچھنا اپنے مادر وطن سے دوری کسے کہتے ہیں۔ انسان صرف جسمانی طور پر اپنے وطن سے دور رہتا ہے جبکہ دل و دماغ وطن کی یادوں میں ہی کھوئے رہتے ہیں۔ دن بھر مجبوریوں سے لڑتے لڑتے رات کو جب تھک ہار کر اپنے خواب گاہ کی جانب لوٹتے ہونگے مادر وطن کی یاد روتے ہونگے۔

اب میرا وطن ایک ظالم ریاست کے قبضے میں ہے، میرے سرزمین کے انسان تو انسان، پرندے تک غلام ہیں۔ ماں اگر قید میں ہو تو بچے اپنی ماں کو دشمن کے قید سے آزاد کرنے کے لئے اپنی جان لگا دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے اکہتر سال سے اس قوم کے شیر دل بے شمار قربانیاں دیتے آئے ہیں۔ 11 اگست 1947 کو ہم نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی، بعدازاں 27 مارچ 1948 کو میرے سرزمین پر پاکستان نے قبضہ کیا۔ آج اکہتر سال گذرنے کے باوجود میرا بلوچستان دنیا میں ایک مقبوضہ ملک کی حیثیت رکھتا ہے اور آج بھی بلوچ قوم ایک غلام قوم ہے۔

پچھلے اکہتر سالوں سے قابض ریاست کی جانب سے میری قوم پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں، ان میں بلوچ نسل کشی سر فہرست ہے کیونکہ دشمن اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اگر بلوچ رہے گا تو وہ آزادی تک لڑے گا۔ ان اکہتر سالوں میں دشمن نے ہمارے کئی سارے قومی رہنما، طالب علم اور عام بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا اور آج بھی ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ کر رہا ہے۔ جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ کئیوں کو تشدد کر کر کے شہید کیا جاتا ہے اور لاشیں ویرانوں میں پھینک دیئے جاتے ہیں، کسی کی لاش کو ہیلی کاپٹر سے پھینک دیا جاتا ہے، کسی کے جسم کے اعضاء ڈرل مشین سے ڈرل کر کے نکال لیئے جاتے ہیں اور لاشیں ملک کے مختلف علاقوں میں پھینک دیئے جاتی ہیں تو کہیں اجتماعی قبروں سے لاشیں برآمد ہوتی ہیں اور یہی نہیں کئی افراد اب تک لاپتہ ہیں اور دشمن کے ٹارچر سیلوں میں قید طرح طرح کے تشدد برداشت کر رہے ہیں۔ دشمن کے مظالم یہاں تک محدود نہیں ہیں بلکہ آئے دن ہمارے گھروں کو نظر آتش کیا جاتا ہے، ہمارے علاقوں میں زمینی اور فضائی آپریشنز کیئے جاتے ہیں۔

قابض ریاست نے میری قوم کو تمام حقوق سے محروم رکھا ہے، چاہے تعلیم ہو یا صحت۔ اور ان سب کو عالمی برادری کی خاموشی بڑھاوا دے رہی ہے۔ باقی قوموں کی طرح بلوچ قوم کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک آزاد ملک میں آزاد زندگی گذارے کیونکہ آزادی ہر ایک کا بنیادی حق ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی قوتوں کو چاہیئے کہ وہ میرے مادر وطن پر جاری مظالم کی روک تھام کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور ہمیں آزادی دلانے کیلئے اقدامات کریں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔