ملیے لیاری کی گلی گرل سے

353

ایوا بی: خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پٹاری میوزک ایپ پر لانچ ہونے والی نئی انڈر گراؤنڈ ریپر

جب زندگی اپنی ہے

تو مرضی دوسروں کی کیوں؟

جیسا چاہے جی لے گی میں

تکلیف دوسروں کو ہوتی کیوں۔۔۔۔

یہ الفاظ ایوا بی کے ہیں اور حال ہی میں انھیں ایک ریپ سانگ میں ڈھال کر چند دن پہلے خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے پٹاری میوزک ایپ پر ریلیز کیا گیا ہے۔

ایوا بلوچ ہیں اور لیاری میں پلی بڑھی ہیں۔ یہاں کی گلیوں میں ہی ایوا نے اپنے دوستوں سے ریپنگ سیکھی۔

انھیں ’گلی گرل‘ کا نام بھی یہیں دیا گیا ہے۔

بی بی سی کی فیفی ہارون کو انٹرویو دیتے ہوئے ایوا نے کہا کہ والدین تو اس شوق کو پورا کرنے میں میرے ساتھ تھے لیکن میرے بھائی نہیں چاہتے تھے کہ میں اپنی شناخت ظاہر کروں۔

موبائل کو الماری میں رکھ کر ریپ ریکارڈ کرنا تو حیران کن، لیکن ایوا نے ریکارڈنگ ایپ ڈاؤن لوڈ کی اور وہاں بیٹھ کر یہ ریکارڈنگ کی۔

ایوا کہتی ہیں کہ میرے کزنز نے میری حوصلہ افزائی کی اور بھائی کو بھی سمجھایا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ نقاب میں ہی آگے بڑھنا اور یہ کام کرنا چاہتی ہیں۔

گھر کے چند نجی مسائل کی وجہ سے آگے بڑھنے سے ڈر بھی لگتا ہے۔

’گلی بوائے کو دیکھ کر جذبہ پیدا ہوا کہ اب تو کچھ کرنا ہے۔‘

ایوا کا مذید کہنا تھا کہ ’میرا ٹائم آ تو گیا ہے لیکن میں پاکستان کی بڑی ریپر بننا چاہتی ہوں۔‘

لیکن نقاب میں آگے کیسے جائیں گی؟

اس سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ ’مارش میلو کے بھی تو لاکھوں فالورز ہیں لیکن اسے کسی نے انھیں نہیں دیکھا۔‘

ایوا کا کہنا تھا کہ وہ بچپن سے گاتی رہی ہیں۔ ایمینم کے ریپس سے وہ بہت متاثر ہوئیں لیکن آج کل وہ دیسی آرٹسٹس کو زیادہ سنتی ہیں کیونکہ وہ سمجھ بھی آتی ہے۔

کیسا ردعمل ملا؟

ایوا کہتی ہیں ’کچھ لوگوں نے تنقید کی۔‘

سیکریٹ سپر سٹار کے نام سے ایک انڈین فلم کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایوا نے بتایا کہ ’میں نے وہ فلم بہت بار دیکھی ہے اور ہر کوئی مجھے کہتا تھا کہ یہ تمھاری کہانی ہے۔‘

ایوا نے بتایا کہ لیاری کے بلوچ ریپر زیادہ تر لیاری کے بارے میں بتاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’لیاری کا سب سے بڑا مسئلہ بے روز گاری ہے اور میں اس مسئلے کو سامنے لانا چاہتی ہیں۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کے موضوع پر بھی کچھ لکھنا چاہتی ہوں۔‘

ایوا کے الفاظ کو موسیقی میں مکمل طور پر ڈھالنے میں زری فیصل کا ایک بڑا ہاتھ ہے۔

بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ایوا سے میری پہلی ملاقات اب ہو رہی ہے ورنہ ہمارا رابطہ انسٹاگرام پر تھا۔

وہ کہتی ہیں ’یہ پراجیکٹ میرے ذہن میں گلی بوائے کو دیکھ کر آیا اور ہم نے فیصلہ کیا کہ کسی لڑکی ریپر کو لیں گے۔‘

’لیاری سے تعلق رکھنے والے میری ٹیم ممبر شہزاد نے مجھے ایوا کے بارے میں بتایا۔‘

وہ کہتی ہیں ایوا کو سنا تو لگا ’گو کہ یہ لڑکی انڈر گراؤنڈ کام کرتی ہے، لیکن وہ آگاہی پوری طرح سے رکھتی ہے۔‘

زری کہتی ہیں کہ دو کمپنیز نے مل کر اسے بنایا ہے۔ ’پٹاری نے میوزک اور بیٹ دی اور ہماری کمپنی نے ویڈیو بنائی۔‘

بشکریہ بی بی سی اردو