مقید سعودی خواتین کے مقدمے کی دوبارہ سماعت

182

سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی سرگرم خواتین کو گزشتہ کئی ماہ سے زیر حراست رکھا گیا ہے۔ ان خواتین کی گرفتاریوں پر مغربی اقوام نے سعودی حکومت پر شدید تنقید کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

بدھ ستائیس مارچ کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کی ایک عدالت میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم مقید خواتین کے مقدمات کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔ اس سماعت کی تفصیلات عدالت کی جانب سے جاری نہیں کی گئیں۔ یہ خواتین گزشتہ آٹھ ماہ سے زائد عرصے سے حراست میں ہیں۔

ان خواتین میں انسانی حقوق کی نوجوان کارکن لجین الھذول، کنگ سعود یونیورسٹی کی محقق اور شعبہٴ تاریخ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ھتون الفاسی اور ممتاز بلاگر ایمان النفجان نمایاں ہیں۔ ھتون الفاسی نے اپنے ایک تحقیق مقالے میں یہ تحریر کیا تھا کہ حجاز علاقے کی قدیمی سلطنت نبٰطیہ میں خواتین کو موجودہ حکومت سے زیادہ آزادی حاصل تھی۔ بعض اساتذہ کے مطابق یہی ریسرچ خاتون محقق کا جرم ہے۔

انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے مقید خواتین کو قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے اور انہیں تشدد  کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان کے مطابق اعلیٰ تعلیم یافتہ گرفتار خواتین کو ناروا سلوک کے علاوہ جنسی زیادتی کا بھی سامنا رہا ہے۔ سعودی حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

پہلے یہ مقدمہ اعلیٰ اختیاراتی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جانا تھا لیکن بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اس مقدمے کو ملکی دارالحکومت کی فوجداری عدالت میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ امکاناً حکومت ان خواتین کو کسی حد تک نرم سزا دینے کی جانب مائل ہوئی ہے۔

استغاثہ الزامات ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا تو ان خواتین کو سعودی سائبر قوانین کے تحت پانچ برس تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ان پر الزامات ہیں کہ یہ انسانی حقوق کی سرگرمیوں کے دوران غیر ملکی صحافیوں اور سفارت کاروں کے ساتھ رابطے استوار کیے ہوئے تھیں۔ ان کے علاوہ ان خواتین کو ملکی سلامتی کے منافی سرگرمیوں کے الزام کا بھی سامنا ہے۔

عدالت میں غیر ملکی صحافیوں اور سفارت کاروں کا داخلہ ممنوع رکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ان تمام افراد نے عدالتی کارروائی سننے کے لیے مجاز اتھارٹی کو مقدمے کی حساسیت کے تناظر میں درخواست بھی دی تھی۔ بدھ ستائیس مارچ کو عدالت تک پہنچنے والے مغربی سفارت کاروں اور غیر ملکی صحافیوں کو نگرانی میں عدالتی عمارت سے باہر لے جایا گیا۔

نو امریکی سینیٹروں نے بھی سعودی باشاہ کو ان خواتین کے مقدمے ختم کرنے اور انہیں رہا کرنے کے لیے ایک خط تحریر کیا تھا۔ برطانوی اور امریکی وزرائے خارجہ نے سعودی عرب کے اپنے دوروں کے دوران اس معاملے پر اپنی حکومتوں کی تشویش سے ریاض حکام کو آگاہ کیا تھا۔

مغربی اقوام ان خواتین کی گرفتاریوں کے تناظر میں سعودی عرب پر شدید تنقید کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اِن کی رہائی کا مطالبہ کرتی ہیں۔ کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کم از کم اٹھائیس ممالک نے ان خواتین کی رہائی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔