مقدمہ آزادی
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
قیام پاکستان، جہاں چند سرمایہ دار، جاگیردار خاندانوں کیلئے خوشخبری تھی، وہیں پر لاکھوں انسانوں اور خوشحال آزاد و خودمختار اقوام کیلئے عذاب و ذلت کی شہنائی ثابت ہوئی۔ ریاستی بربریت و قبضہ گیریت کے تاریخ رقم ہوۓ، بلوچوں کے آزاد اور پشتونوں کے خود مختیار ریاستوں کو تخت تاراج کی گیا۔ جبر کے زور پر مقبوضہ علاقوں سے تہذیب و ثقافت کو شجر ممنوعہ بنا دیا گیا۔ جن لوگوں نے سر اٹھایا انکو کاٹ پھینکا گیا، زندہ ہاتھ آنے والوں کو کال کوٹھڑی میں خونی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ قوم دوستی، وطن پرستی کو غداری قرار دیکر وطن کے سرفروش فرزندوں کو سرزمین بدر کیا گیا۔ انگریز کے جانے کا اس خطہ و اقوام کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی پہنچا، جن علاقوں کے وسائل پہلے انگریزی تسلط میں تھے، اب پنجابی نے مزید تیزی سے انکے وسائل کی لوٹ مار شروع کی۔ ان اقوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات دینے کے بجائے انکو قابو میں رکھنے کیلئے فوجی چھاونیوں کے جال بچھائے گئے۔ مذہبی منافرت پر مبنی تعلیم، ذہنوں کو کند کرنے کیلئے جھوٹ پر مبنی نصاب سے ہر گلی کوچے میں شعور و وطن پرستی کا گلہ گھونٹا گیا۔ تعلیم کو غلامی و نوکری کا نظام بنا دیا گیا، آج تک ان اقوام کا مقدمہ حل طلب رہا ہے، جسکا فیصلہ ہونا اٹل ہے، اسکے حل ہوۓ بنا نہ خوشحالی ہے اور نہ امن ہے۔
فلسفے کا بنیاد ایک سوال پر پڑتا ہے، اسی کے جواب سے سوال اپنا مقام بنا پاتی ہے، بالکل اسی طرح قومی سوال بھی قوموں کے مقدمہ آزادی کو جواز فراہم کرتی ہے۔ آزادی حاصل کرنا بنیادی انسانی حقوق سمیت انسانیت کو آزادی جیسی اعلیٰ اعزاز فراہم کرتی ہے۔ کوئی بھی قوم بنا آزاد وطن کے اپنے شناخت کے بنیادی اجزاء جن میں ثقافت، زبان، رسم و رواج، جغرافیہ شامل ہیں ان کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں رہ پاتی۔ دنیا جہاں جدید ٹیکنالوجی و سائنسی ایجادات کی بنیاد پر سکڑتی جاری ہے، اسی طرح وہ اقوام جو ہنوز اپنے الگ شناخت بنانے اور اپنی بنیادی حقوق انسانی و آزادی کو حاصل نہیں کر پارہے، انکی شناخت کو شدید خطرات لاحق ہوچکی ہیں۔ ان اقوام کے پاس اس یلغار و قبضہ گیریت سے نمٹنے کا واحد ذریعہ اپنے تاریخی بنیاد پر ایک موثر اور پختہ نظریئے کی تشکل سے ممکن ہے۔
نظریہ آزادی وہ واحد ہتھیار ہے جو قوم کا دفاع کرپائے گی اور مستقبل کی پیش بینی کے ساتھ رہنمائی کرتی رہے گی۔ واضح حدف، قومی منزل، آزادی کو حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ جد و جہد میں عروج و زوال کے باوجود نظریہ خود کو برقرار رکھتی ہے اور جہد سے منسلک جہد کار اسکو عملی جامہ پہنانے کی منصوبہ سازی کرتے رہتے ہیں۔ مقدمہ آزادی کو جیتنے کیلئے ایک حقیقی اور قومی تاریخ کی سچائی پر مبنی ایک منزل کی نشاندہی کرنیوالا نظریئے ہی سے ہوتی ہے، جو نسل در نسل منتقل ہونے والے جد و جہد کو استقامت اور پختگی فراہم کرتی ہے۔
مقدمہ آزادی نظریاتی بنیادیں ملنے کے بعد عملی جامہ پہنانے کی جانب بڑھتی ہے۔ اسکے لیئے کوئی آسمانی صحیفوں کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ ٹھوس حقائق اور اردگرد کے ماحول میں پنپ رہی غلامی کے اثرات سے پھیلی، بے چینی اور سماج کی تبدیل شدہ چہرہ ہی ٹھوس ثبوت ہوتے ہیں۔ جن پر یہ مقدمہ قائم رہتا ہے۔ کامیابی کیلئے ضروری طور پر اس تسلسل کو نسل در نسل منتقل کی جائے، اس میں تاریخی واقعات، اصل مقصد و منزل کو واضح کرتی ہیں۔ مقدمے کی سمجھ اور اس کے تاریخی حوالہ جات کے پورے ہونے کے بعد قومی تشکیل کے اس اہم مرحلے کو طے کرنے کیلئے کمر بستہ ہونا چاہیئے، جو اس تحریک کو یکجہتی اور طاقت فراہم کرے گی۔ قوم پرست تحریکوں میں قوم کا یکجاء کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں، ایک قابل قیادت متحرک تنظیم اسکو بہتر طور پر سرانجام دے سکتی ہے، اگر طریقہ کار پر متفق نہ ہونے کے سبب جب ایک سے زیادہ یا دو، چار تنظیمیں نمائندگی کا کردار ادا کرتی ہیں، تو ایسی صورت میں مشکلات تھوڑی زیادہ ہوتی ہیں، مگر اس صورت حال کو سنبھالنے کیلیے قیادت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیئے تاکہ مقدمہ آزادی کو موثر و مظبوط طریقے سے اقوام عالم کے سامنے پیش کرنے میں آسانی ہو۔
کسی بھی تحریک کی کامیابی متحرک لیڈرشپ و قیادت پر ہوتی ہے، اگر قیادت ان صلاحیتوں سے نالاں و محروم ہے تو نظریاتی کارکن کسی بھی مناسب مرحلہ پر سیاسی رویہ اختیار کرکے قیادت کی تبدیلی کے عمل کو تنظیمی قوائد کے مطابق پورا کریں۔ یہ کوئی منفی عمل نہیں بلکہ قوم اور تنظیم و جماعت کو سرابوں میں دوڑانے سے بہتر ہے کہ ایک قابل و متحرک قیادت قومی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے لائحہ عمل ترتیب دے۔ وہ نسل، قیادت اور قوم خوش نصیب ہوتے ہیں جنکو وقت، حالات اور زمانہ اپنے مقدمہ کو پیش کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس مقدمے کو فیصلہ کن و تاریخی بنانے، خوشحالی و امن کیلئے مقدمہ آزادی کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کو قائم کرنے کیلئے علم و عمل اور قربانیوں سے ہی کامیابی اٹل و یقینی طور پر ملتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔