مظلوم کے آہ میں بڑی طاقت ہوتی ہے
تحریر: سمیر جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اللہ جس کو چاہے عزت دے اور جس سے چاہے لے، یہ اس کے اوپر منحصر ہے۔ یہ باتیں ہم اکثر سنتے آرہے ہیں اور یقیناً آیندہ بھی یہ سلسلہ تسلسل سے جاری رہے گا، وہ بڑی ہستی ہے۔ یہاں ذہن میں ایک اہم نقطہ ابھرتا ہے کہ جن مذہبی علماء، پنڈتوں اور فادروں سے قیامت قیامت سنتے آرہے ہیں، کیا وہ ذلت کا دوسرا نام نہیں ہے؟ قیامت جس کا چرچا ہر مذہب کے ماننے والے کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ آئے گا ہم اس کا فرضی مثال لیں تو ہمیں اس قیامت کے آثار امروز میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
مذہب کے پنڈت کہتے ہیں کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد یعنی ایک اللہ پاک کے حقوق اور دوسرے اس کے بندوں کے ہوتے ہیں۔ خالق کا فرمان ہے ’’ اے بندے میں اپنے حقوق تمہارے توبہ زاری پر معاف کرسکتاہوں مگر یاد رکھیں اپنے بندوں کے حقوق کبھی نہیں اور کبھی نہیں‘‘ اس سچائی کے بعد خالق کے واحدالقہار ہونے کا منصب یادآتاہے اور انھیں واحدالقہار ہی سے پکارا جاتاہے۔ جب وہ واحد القہار ہوئے تو یقیناً گمراہ انسان کی وہ ذلت شروع ہوتی ہے۔ کہاوت ہے جب اللہ پاک راضی ہوتاہے تو چھت پھاڑ کر دیتا ہے جب لیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر۔ اس چھت پھاڑ کر دینے اور پھر چھپر پھاڑ کر لینے پر ویسے تو دنیا کے ہرمعاشرے میں کافی مثالیں ملتی ہوں گی۔ مگر یہاں ہمارا مدعا ایک ایسے کردار پر ہے جسے رب نے چھت پھاڑ کر دیا اورپھر چھپر پھاڑ کرواپس لیا بھی۔ وہ کردار ہے شہید میر لونگ خان کے بیٹے میر قمبرخان کا موصوف نے جب ہوش سنبھالا تو اس کے والد صاحب ماں دھرتی کے دفاع میں ناپاک ملک پاکستان اور اس کے کرائے کے فوج سے اپنے وطن کی آزادی کیلئے دیگر غیرت مند بلوچوں کے ساتھ لڑتے لڑتے دشت گوران قلات کے علاقہ شور پارود کے سنگلاخ پہاڑوں میں امر ہوچکا تھا۔ کاش اس وقت اگر نیلسن منڈیلا کا یہ قول موجود ہوتا’’ میری موت کے بعد میرے خاندان کے کسی بھی فرد کو میری قربانیوں کے بدولت کوئی مقام نا دیا جائے بلکہ جس نے بھی زیادہ جدوجہد کی ہے مقام ومرتبہ اسی کا حق ہے‘‘ تو میر قمبر خان کو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا ۔( بلوچ معاشرے میں میر قمبرخان جیسے اب بھی ایسے کردار ہیں جن کو ہمارے لوگ شعور کی کمی یا خلوص کے باعث وہ مقام دیتے ہیں جس کا وہ سرے سے حقدار نہیں۔ یا شومئی قسمت وہ اب تک اپنی جہالت، ذاتی مفاد اور چمچہ گیری کی باعث ایسے کرداروں کو سرپر بٹھاکر ہیرو بناتے ہیں جن میں ان کا ذاتی مفاد شامل ہو ۔وہ کہتے ہیں ’’ واہ بھائی فلانی کے اتنے بندے مسنگ ہیں یا فوج نے شہید کئے، اتنے بندے اب بھی دشمن کے خلاف سرمچاربن کر جنگ کے میدان میں ہیں ‘‘وغیرہ وغیرہ۔)
آج بھی ہمارے سماج نے پنجابی کے مرہون منت اتنی تعلیم اور ترقی نہیں کی ہے کہ وہ اس عمل کو روکیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب تک ہمارے انقلابی تنظیم یا پارٹیاں اپنے کامریڈ ساتھیوں کومکمل نظریئے سے لیس نہیں کرتے، اس وقت تک عام عوام میں انقلابی سوچ پختہ اور جڑ نہیں پکڑسکتا۔ جب تک عوام میں میں شعور پیدا نہیں کیا گیا، تو اس وقت تک میر قمبر خان جیسے شاطر لومڑیاں لوگوں کے دلوں پر جانی، مالی اضافی عزت شہرت حاصل کرتے رہیں گے۔ تاہم دوسری جانب قدرت کا قانون اور سائنسی اصول ہے کہ ری سائیکلنگ کے عمل میں وہ ملک یا شخص، وہ سب جو پایا ہے ایک دن ضرور کھودے گا۔ کیونکہ پریکٹیکلی عمل اور قابلیت کے حساب سے اس پر اس کا کوئی حق نہیں بنتا جو کسی وجہ سے اسے دیا گیا ہے۔ آج اس کا مانا ہوا سچ ہمارے سامنے ہے کہ میر قمبر خان بیس سال قبل علاقائی لوگوں کے علاوہ بلوچ قومی جہد کاروں اور تنظیموں کے دلوں کے اندر احترام سے لیکر مالی کمک تک راج کررہا تھا۔ لیکن عوام اور جہدکاروں کے سامنے اپنی نالائقی، جہالت، لالچ، دوغلےپن اور نیچ حرکتوں کے سبب زیادہ دیر تک نہیں چھپ سکا۔ نتیجتاً انھوں نے اپنے ہاتھ کھینچ لیئے اور موصوف اس پنجاب جس نے اس کے والد محترم سمیت ہزاروں بلوچ مرد و خواتین کو قتل کیا تھا، اسکے علاوہ سینکڑوں بلوچ جہد کاروں اور علاقائی عوام کو مالی و جانی نقصان دینے والے قومی قاتل ثناء اللہ زہری (جوکہ اس کے خود کے بھائی میر شائستہ خاں سمیت دسیوں خاندان کے افراد کے قتل میں ملوث تھا)کے سامنے گڑگڑاکر سرینڈر ہوگیا بلکہ آئندہ کیلئے وعدہ کیا کہ میں بلوچ جہد کاروں سے نہ صرف دوررہوں گا بلکہ انہیں نقصان پہنچانے کیلئے بھی اپنا منہ کوئلے سے کالا کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔
دم چلہ بنتے ہی انہوں نے (گذشتہ چار سال سے) اس کھیل میں بلوچ جہدکاروں کے فوجی مڈی سمیت جانی نقصان دینے میں بھی کوئی کثر نہیں چھوڑا۔ ( میر قمبر خان کے سیاہ کارنامے وقتاً فوقتناً میڈیا کا حصہ بن چکے ہیں اور لوگ واقف ہیں) اس مقصد کو تقویت دینے کیلئے انھوں نے گذشتہ چار سال کے اندرگٹھ جوڑ کرکے رحیم الدین ساسولی، میر کوہی جیسے ڈیتھ اسکواڈ کی ہمراہ داری میں بلوچ کاز کے علاوہ علاقہ مکینوں کی زندگی اجیرن بنانا شروع کردیا۔ یہ کہہ کر کہ یہاں کے رہنے والے ساسولی، سمالانی، مینگل اور دیگر قبائل اگر بلوچ سرمچاروں کی مخبری اورانہیں شور کے پہاڑوں سے فوج اور ہمارے ساتھ مل کر بیدخل کرنے کیلئے ساتھ نہیں دیتے تو یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں رکھتے اور انہیں فوج کے ہاتھوں اغواء اور قتل کروادیا جائے گا۔ انکار کرنے پرموصوف اسی بات پر اڑے رہے، کئی نہتے بلوچوں کو فوج کے ہاتھ تو کسی کو اپنے ڈیتھ سنٹرمیں اذیتیں دیں اور کئی کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید کروایا۔ ظلم کی انتہا یہ کہ شہید اعظم جان اپنے بال بچوں سمیت پارود چھوڑ کر مولہ بھاگ نکلا تھا، یہ کہہ کر کہ میں بلوچ سرمچاروں کے خلاف کوئی ایسا عمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، جس سے انھیں نقصان پہنچے تو انھیں مولہ میں اپنے کرائے کے قاتلوں کے ذریعے شہید کروادیا۔ بقیہ سینکڑوں خانہ بدوشوں کو شور کے علاقے سے بے دخل کردیا جوکہ دیگر علاقوں میں جاکر کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
کہتے ہیں اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں اور اسکی لاٹھی بے آواز ہے۔ میر قمبر خان جوکہ پانچ سال قبل تک لوگوں کے دلوں پر راج کررہاتھا، آج بلوچ دشمنی میں اپنے آنکھوں کے سامنے اتنا گرچکاہے کہ اپنے شہید باپ اور بھائی کے قاتلوں کے سامنے ہاتھ پھیلاکر آنکھیں نیچی کرکے ان کے ساتھ ان کے رحم وکرم پر جینے پر مجبور ہے۔ میر قمبر خان کی ذلت سے یہ بات عیاں ہے کہ بھلے کوئی بادشاہ کیوں نہ ہو جب عوام اپنا ہاتھ کھینچ لیں، تو وہ تخت سے تختہ ہونے میں دیر نہیں لگاتا اور وہ اگر مسلمان ہے تو اتنا گرجاتاہے کہ خنزیر کے گوشت کو ہلال سمجھ کر کھا لینے پر مجبور ہوتا ہے موصوف آج اس اسٹیج پر کھڑاہے۔
آج پنجابی انہیں دھوکہ دیکر دشت گوران میں جو چوکی انکے اور انکے ڈیٹھ اسکوائڈ کے کارندوں کے حفاظت کیلئے قائم تھے وہ اٹھوادیئے ہیں۔ اب ڈر یہ ہے کہ (بلوچ سرمچار تو اس آرمی کیمپ کی پرواہ کیئے بغیر اس کی نیندیں اڑا چکے تھے اور اب آرمی کا ساتھ چھوڑنے کے بعد) وہ مظلوم عوام، جنکی آنکھوں میں خون بھرآیاہے، میر صاحب لومڑی کا چال چلاکر انھیں رام کر پائیں گے یا انکے غضب کا تاب نہ لاکر بہہ جائیں گے، یہ وقت ہی بتائے گا۔ تاہم جہاں تک عزت کی بات ہے تو یہ سوفیصد سچ ہے کہ موصوف گنوا چکے ہیں۔ ہماری دعا ہے اللہ پاک میر قمبرخان کو اپنے بلوں سمیت لمبی عمردیں اورآئندہ بھی وہ اپنی ذلت دیکھتے رہیں کہ شہیدوں کے خون سے غداری کتنا مشکل اور دشمن سے ہاتھ ملانا کتنا ذلت کا سودا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔