لشکر تاثیر کو اجمیری کے خلاف نیک دعائیں کیوں؟
پیادہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پنجابی ریاست کے آگے ابھی آس پاس رہنے والے سندھی پشتون اور بلوچ برے وقت میں سب مسلمان نظر آتے ہیں اور خود پنجابی معصوم بن کر اپنے آپ کو سب کے دل میں بسانے کی خواہش رکھتا ہے حالانکہ اسکے اس معصوم چہرہ کے برعکس ایک بھیانک چہرہ بلوچ، پشتون اور سندھیوں کے اکثر گھروں تک رسائی حاصل کرچکی ہے۔
اس وقت ایک مصیبت کا پنجاب پر مسلط ہونا، ان بے گناہ معصوم بلوچ، پشتون، سندھی جوانوں کی ماں بہنوں کی بد دعائیں ہیں جو ہمسایہ ممالک کی صورت میں ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔
ایک طرف پنجاب ریاست کی فوج کی ڈھیروں لاشیں مختلف مقامات پر بکھرے پڑے ہیں، دوسری طرف ریاستی کرائے کا میڈیا آس پاس کے قوموں کو اپنے مکڑے جیسے جال میں پھنسانے کی چالبازی کرتے دکھائی دے رہا ہے کہ فلانہ بلوچ نے کٹھ پتلی گہرام کی قیادت میں سرنڈر کردیا ہے، مگر وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ابھی بلوچستان کے پہاڑوں میں اور بھی ازل خان مری، باز بلوچ، شیروف مری، نواب خیر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی، بالاچ خان جیسے بہادر فرزند زندہ ہیں، جو اپنے جہد کو حصول آزادی تک پہنچاکر دم لینے کی طاقت محفوظ رکھتے ہیں اور جہد آزادی ء بلوچستان کم ظرف و کم علم رکھنے والے ڈرپوکوں کا محتاج نہیں ہے۔
پنجاب ریاست کے مختلف رنگیلے ملا اس وقت ہندوستان میں اجمیری کے دربار کو بھول چکے ہیں اور اس وقت یہ بھی بھول گئے ہیں کہ دارالعلوم دیو بند کے بعد ناپاک ریاست کے سرکاری دفاتر سمیت مختلف اداروں مدارسوں کے نام پر نام نہاد مجاہدہن کے کیمپوں کو بھی دیو بندیوں کا نام دیا گیا ہے اور بریلوی مسلک کا سلسلہ بھی ہندوستان سے جاکر ملتا ہے، اس وقت ریاست نے گرگٹ کی طرح ایک اور رنگ اپنایا ہوا ہے۔
ناپاک ریاست کے موجودہ سپہ سالار جاوید قمر باجوہ خفیہ طریقے سے منظر عام پر آنے والے ایک وڈیو میں یہ کہتا ہے کہ ہمارے ملک کے چند جاہل لوگ، جو دو حرف سیکھ کر جہاد کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، انہیں کچھ نہیں معلوم کہ اصل جہاد کیا ہے۔ مگر آج ہندوستان سےدو طمانچے گال پر کھانے کے بعد آس پاس کی تمام قوتیں اپنے لگتے ہیں۔
بلوچ قوم کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہماری بہن سیما بلوچ، ماما قدیر بلوچ کے ساتھ شانہ بشانہ سرد راتوں میں اپنے لاپتہ بھائیوں کی بازیابی کی منتظر ہیں آج بھی منظور پشتین، علی وزیر اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، آج بھی سندھی قوم لاڑکانہ کے مختلف شاہراوں پر اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔
اگر انڈیا سمیت کوئی بھی ملک اس ریاست کی اصلیت جان کر اسے سبق سکھانا چاہتا ہے تو بلوچ قوم کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان ٹوٹ جائے بلکہ بلوچ قوم کو اس جنگ سے تھوڑا بہت چھٹکارہ حاصل تو ہوگا، کم از کم چند چوکیاں خالی تو ہوجائینگے، جو بلوچ قوم کیلئے دوران سفر رکاوٹوں کا باعث بن چکی ہیں، پورا بلو چستان فوجی چھاونی کی شکل اختیار کرچکی ہے۔
آج پنجابی ریاست نے اپنی تمام تر ایٹمی اثاثے بلوچستان میں محفوظ رکھا ہوا ہے، صرف اس لیئے کہ باہر کا کوئی بھی قوت پنجاب کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ لہٰذا بلوچ قوم سمیت پشتون اور سندھی قوم اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے جدوجہد کریں اس پنجابی ریاست کی خیر خواہی کو اپنے دل سے نکال دیں، کیونکہ ایسی ریاست کی بیخ کنی کسی نہ کسی طریقے سے ہونا ہی ہے، چاہے انڈیا کی صورت میں ہو یا کسی اور قوت کی صورت میں ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔