فکرِجہد مسلسل
شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اکثر کچھ دوستوں کو دیکھتا ہوں جو جبر کے باعث خود کو ایسے کردار میں پیش کررہے ہیں جیسے تحریک سے ان کا کبھی دور دور تک کا کوئی واسطہ ہی نہیں اور کچھ تو تحریک سے لاتعلقی کے لیے کبھی کبھار قبضہ گیر ریاست کی حمایت کا دکھاوا تک کرتے ہیں۔ یہ رویے بطور ایک سیاسی کارکن ہرگز باعث حیرت نہیں اور نا ہی یہ ایک باشعور انسان کو مایوس کرسکتے ہیں بلکہ ایک باشعور انسان ان کرداروں سے متاثر ہوتا ہے جو اپنے نظریئے کو آخر حد تک نبھاتے ہیں اور کھٹن سے کھٹن حالات میں اپنے جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوتے۔
جدوجہد تو باشعور انسان کی حقیقی زندگی ہے، وہ حقیقی زندگی سے کیسے مایوس ہوسکتا ہے؟
جدوجہد تو ہوتی ہی ہے مایوسی کے خلاف۔۔۔ جہدکار کسی بھی صورت مایوس نہیں ہوسکتا اور اس کے لیے ہمیں دنیا کی تاریخ چھاننے کی ضرورت بھی نہیں خود ہمارے ہی جدوجہد میں حالیہ مثال استاد اسلم کی ہے کہ انہوں نے کتنے مسائل و مصائب کے باوجود اپنے کمٹمنٹ و جدوجہد کو کتنے خوبصورتی سے نبھایا اور یہاں تک کہ وہ آج ہمارے مشعل راہ کے طور پر ہمارے ساتھ ہیں۔ مانتا ہوں ایسے نقصانات تحریکوں کو کمزور کردیتے ہیں لیکن تحریکیں جب ایسے رہنماوں کے آدرشوں پر چلتی ہیں تب کامیابی ان کا مقدر ہوتی ہیں۔
آخری لمحے تک مایوس نہ ہونا استاد کا ایک ایسا درس ہے جس پر ہر پرفکر انقلابی کو عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا کیا ہے جو منزل سے زیادہ قیمتی ہے؟ بلوچ قوم کی اجتماعی منزل سے زیادہ کیا شے خوبصورت ہوسکتی ہے؟
آخر ہم جدوجہد نہیں کرینگے تو اور کون کریگا؟ دنیا میں کبھی کسی اور نے کسی قوم کو آزادی دی ہے بلکہ اقوام نے جدوجہد اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے اپنی آزادی حاصل کی ہے۔ اگر ہمارے اجداد جدوجہد کرتے تو ہم آزاد ہوتے، اسی طرح اگر آج ہم غلام ہیں تو یہ غلامی ہمارے اجداد کی مایوسیوں کا طوق ہے اب ہم اپنے آنے والے مستقبل کے نسل کو کیا دینا چاہتے ہیں؟ اگر ہمارے پاس بھی محرومیوں و مایوسیوں سے بھرپور غلامی کا طوق ہے اور نوآبادکار کی اطاعت و وفاداری ہے تو پھر ہمیں اپنے وجود پر نادم ہونا چاہیے۔ ہم کس ورثے کے وارث بننا چاہتے ہیں؟
ایک ورثہ وہ ہے جس میں امید ہے یقین ہے کہ آنے والا کل آزادی کی روشنی سے بھرپور ہوگا اور اس کے لیے جہد مسلسل پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور آزادی کی روشنی میں آزاد انسان جیئں گے یہ ورثہ ہمارے جہدکار شہدا کا ورثہ ہے۔
دوسرا ورثہ وہی ہے طوق غلامی کا جو ہمیں مایوسیوں کے سبب عطا ہوا ہے اور جو بھی اس ورثہ کا وارث ہوگا وہ قطعا باشعور انسان نہیں کہلا سکتا۔
باشعور انسان وہ ہے جو جہد مسلسل پر یقین رکھتا ہے جو جبر کے نظام سے اگر لڑ نہیں سکتا تو جو کم از کم لڑ رہے ہیں ان کی حمایت کرتا ہے۔
جدوجہد مجھ سے اور آپ سے عظیم تر ہے کیونکہ یہ اس دھرتی کو آکسیجن فراہم کررہی ہے۔ یہ دھرتی اور اس سے وابستہ فرزند جدوجہد کی بدولت زندہ ہیں اور جدوجہد کی آکسیجن جتنی زیادہ ہوگی زندگی کے آثار و امکانات اتنے زیادہ ہونگے۔ میں اور آپ نہیں تھے بھی جدوجہد تھی، میں اور آپ نہیں ہونگے بھی تو جدوجہد رہیگی لیکن ہمیں اپنا کردار عطا کرتے ہوئے اس جدوجہد کو ایندھن فراہم کرنا ہوگا جیسے ہمارے تمام شہدا نے کیا۔ یہی ہمارے استاد کا فرمان ہے اور اسی روٹ پر کامیابی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔