غلامی کے 71 اور انتظار کے 10 سال
تحریر: لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
27 مارچ 1948 کے جبری الحاق سے لیکر تاحال بلوچ قوم ظلم و جبر اور استبداد کی شکار ہوتی آرہی ہے، ہر روز جبر کی نئی داستانیں رقم کی جاری ہیں، ہر طرح کی ظلم بلوچستان اور بلوچ قوم پر جائز تصور کیا جاتا ہے، آپریشن، گرفتاریاں ، جبری گمشدگیاں اور مسخ شدہ لاشیں روز کا معمول بن چکے ہیں، جہاں 27 مارچ جبری الحاق اور غلامی کی زخموں کو تازہ کرتا ہے اس کے علاوہ میرے لئے 27 مارچ ایک انتہائی دردناک دن ہے، غلامی کے درد کیساتھ اس دن مجھے میرے بھائی کبیر بلوچ اور اُن کے ساتھیوں مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ بلوچ کی جبری گمشدگی کا درد بھی سہنا پڑتا ہے۔ ایک طرف جبری الحاق کی ظلم و زیادتیاں تازہ ہوتی ہیں، دوسری جانب جبری گمشدگیوں کا دردناک واقعہ تکلیف و اذیت میں اضافہ کرتی ہے، 27 مارچ 2009 کو کبیر بلوچ اور اُن کے ساتھی مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ بلوچ کو ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے ریاستی قبضہ گیر فورسز کے معاونت سے خضدار ہائی وے آر سی ڈی شاہراہ سے اغوا کرکے غائب کردیا۔ آج 10 سال کا طویل عرصہ گذر چکا ہے لیکن وہ لاپتہ ہیں، جبری گمشدگیوں کا یہ نہ پہلا واقعہ تھا نہ آخری اس سے پہلے بھی اس طرح بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کیا گیا ہے، اسد اللہ مینگل اور احمد شاہ بلوچ کو 43 سال قبل 1976 کو کراچی سے اغوا کیا گیا اور دوران حراست بدترین تشدد کا نشانہ بناکر شہید کیا گیا اور لاشیں بھی خاندان و بلوچ قوم کے حوالے نہیں کیئے گئے، قبضہ گیر یہ ظلم و جبر کی داستان ہر روز بلوچستان میں دہراتے ہیں، 40 ہزار سے زائد بلوچ لاپتہ ہیں، 6 ہزار سے زائد مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی، اب تک جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے، روزانہ کی بنیاد پر جبری گمشدگیوں کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں، روز ماوں سے اُنکے لخت جگر چھینے جاتے ہیں۔
کبیر، مشتاق اور عطاء اللہ کا قصور اور جرم صرف یہ تھا کہ وہ اپنے سرزمین اور قوم سے محبت کرتے تھے، وہ غلامی کو ایک ناسور و لعنت سمجھتے تھے، اپنے محفلوں میں بلوچ قوم پر ہونے والے مظالم اور ریاستی بربریت و قبضہ گیریت کے خلاف بات کرتے تھے، وہ اسلحہ سے مسلح نہیں تھے لیکن شعور رکھتے تھے۔ غلامی کے درد و تکلیف کو سمجھتے تھے، آزادی کی قیمت و نعمت سے آگاہ تھے، اُنکا وطن سے محبت اور شعور اُنکا جرم ٹہرا، اس جرم کی پاداش میں انہیں اغوا کرکے عقوبت خانوں اور اندھیری کوٹھیوں میں پھینکا گیا، تاکہ بلوچ آزادی کی چاہ تک بھی نہیں کریں۔ اُن وطن زادوں کے بارے میں کوئی بشارت نہیں ہے۔
حضرت عیسیٰ واپس آئیں گے لیکن جو بلوچستان سے زندہ اُٹھائے گئے ہیں، اُنکے بارے میں کوئی بشارت نہیں کہ وہ واپس پلٹ کر آئیں گے، حضرت عیسیٰ کو زندہ آسمانی فرشتوں نے اُٹھا لیا، بلوچوں کو بھی زندہ اُٹھایا جاتا ہے لیکن اُٹھانے والے آسمانی فرشتے نہیں، زمینی فرشتے بلکہ زمینی خدا ہیں، جو انسانوں کو محض اس لیئے اُٹھا لیتے ہیں، گمشدہ کرتے ہیں کہ وہ عقل محض پر یقین رکھتے ہیں، روشنی کے لئے سراپا جستجو ہیں، لیکن اُٹھانے والے عقل و شعور سے انکاری ہیں، وہ روشنی سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ اندھیروں، جھوٹ و فریب کے پیروکار ہیں، وہ عقل کے دشمن ہیں، وہ انسانیت کے قاتل ہیں، وہ جبر کے قائل ہیں، اس لیئے وہ زندہ انسانوں کو اُٹھا لیتے ہیں، عقوبت خانوں میں پس زندان کردیتے ہیں، کالی کوٹھڑیوں میں اُنکے سوچ اور شعور کو بند کرتے ہیں لیکن شعور کو قید نہیں کیا جاسکتا، سوچ پر قدغن نہیں لگایا جاسکتا، عقوبت خانوں میں جسمانی ٹارچر کرسکتے ہو، موت دے سکتے ہو، مسخ لاش کی صورت میں پھینک سکتے ہو، بس اتنا کرسکتے ہو اس سے آگے بے بس ہو، تمہارے بس اس سے آگے نہیں چل سکتا کیونکہ لاشیں بھی شعور پھیلاتی ہیں، وہ تمہاری پست ذہنیت، بربریت، شیطانیت اور انسانیت سے عاری ہونے کا ثبوت دیتی ہیں اور تمہارے چہرے سے جمہوریت، انسانیت، مسلمانیت کا پردہ ہٹا لیتے ہیں اور تمہارا اصل چہرہ آشکار کرتے ہیں، اس سے نسلوں میں شعور پھیلتا ہے، نسلیں غلامی کی درد اور تکلیف اور آزادی کی خوشی و حقیقت سے بہرہ مند ہوتے ہیں، اگر مسخ لاشیں نہیں پھینکتے اگر عقوبت خانوں کو بلوچ نوجوانوں سے آباد نہیں کرتے پھر غلامی کی درد، تکلیف اور ذلت سے نسلیں کیسے آشنا ہوتے۔
گمشدگیوں کا سلسلہ ریاست نے بلوچ قوم اور آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیئے شروع کیا، لیکن تحریک گمشدگیوں اور لاشوں کے بوجھ تلے دبنے کے بجائے مزیداُبھرا، تحریکوں کو شہادتیں اور زندان ایندھن فراہم کرتے ہیں، آزادی کی تحریکوں میں خون ایندھن کا کام دیتی ہے، اس لئے سبھاش چندر بوس نے کہا تھا تم مجھے خون دو میں تمھیں آزادی دونگا، مولانا عبدالحق بلوچ کہتے ہیں کہ جب ایک بچے کی پیدائش خون کے بغیر ممکن نہیں تو اتنا بڑا انقلاب جو پورے تہذیب و تمدن کو بدل کر رکھ دے۔ اسکا خون کے بغیر آنا کس طرح ممکن ہے۔
بلوچ آزادی کے لئے خون دے رہے ہیں، اُنکا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ شہیدوں کا لہو او قربانیاں رائیگاں نہیں جاتے، یہ تاریخ کے ہر موڑ میں ہم نے دیکھا ہے، جو مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاری ہیں اور لاشوں کو لاوارث قرار دے کر دفنایا جاتا ہے وہ محض لاشیں نہیں بلکہ آزادی کے بیج ہیں، یہی شہید اور اسیران وطن صبح کا ستارہ، روشنی اور آزادی کا استعارہ ہے۔ شہادتوں و گمشدگیوں سے آزادی کی سحر کو زیادہ دیر تک نہیں روکا جاسکتا، یہ بات طے ہے کہ غلامی کی سیاہ رات کتنی طویل کیوں نہ ہو لیکن ایک دن آزادی کا سورج طلوع ضرور ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔