عورت آزادی چاہتی ہے یا ڈکٹیٹر شپ؟ – نودشنز بلوچ

429

عورت آزادی چاہتی ہے یا ڈکٹیٹر شپ؟

تحریر:نودشنز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں عورت کو ظلم وجبر اور طرح طرح کی اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسی ظلم ،جبر اور بربریت کے خلاف ذی شعور انسان وہ چاہے ہو عورت ہو یامرد ان پہ آواز اٹھا رہا ہے۔ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ عورت کو ان کی بنیادی حقوق دی جائیں، اور انہیں معاشرے کے برابر کا حصہ دار سمجھاجائے ،اور اسی بنیاد پہ ہرسال 8مارچ کو پوری دنیا میں خواتین کا عالمی یوم مناکر خواتین پہ ہونے والے ظلم اور جبر پر آواز بلند کی جاتی ہے ۔

اس سال بھی 8مارچ پورے جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا اور اس سال ان ریلیوں اور پروگرامز میں کچھ ایسے سلوگن سامنے آئے جن سے یہی تاثرات سامنے آتا ہے کہ یہ حقوق کی جنگ لڑنے کے بجائے انتہا پسندی پہ اتر آئے ہیں جس سے یہی تاثر ملتا ہے خواتین آزادی کی بجائے ڈکٹیٹر شپ چاہتے ہیں کہ ان کے دل میں جو آئے وہ کریں۔

یہ حقیقت ہے خواتین پہ ظلم جبر ہورہا ہے انہیں ان کے حقوق ملنا چاہیئے اور آزادی بھی ملنی چاہیئے، جب آزادی کی بات آتی ہے تو ہم یہ سمجھ لیتے ہیں آزادی کا مطلب ہرچیز دل میں آئے وہی کریں مگر ایسا نہیں ہے آزادی کے بھی کچھ دائرے ہوتے ہیں۔

اب جب ہم عورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں، عورت کس طرح آزاد نہیں ہیں؟ تو بات سامنے آتا ہے۔عورت کو پڑھنے کی آزادی نہیں ہے، بعض جگہوں پہ عورت کو معاشرے میں کردار ادا کرنے کا حق نہیں ہے، ان تمام چیزوں کے باوجود کچھ جگہوں پہ خواتین کو صرف سیکس لیبر کے طور پر استعمال کرتے ہیں، یہ تمام چیزیں غلط ہیں بلکہ انتہائی غلط ہیں، ہر ذی شعور انسان کے لئے یہ تمام چیزیں قابل قبول نہیں ہیں۔

مگر اس 8 مارچ کو کچھ ایسے سلوگن سامنے آئے ہیں، جن پہ تمام خواتین اور مرد کو سوچنا چاہیئے، یہ سلوگن قابل قبول ہیں یا نہیں ،ایک سلوگن ہے ،،میں تیار ہوں آگے نہیں پیچھے ڈالنا،، ایک ہے ،،میری جسم میری مرضی،، اس جیسے کئی سلوگن سامنے آئے ہیں، ان پہ اعتراض کی جاتی ہے، کیا ان چیزوں کا اجازت معاشرہ دیتا ہے کیا ان چیزوں کی اجازت دنیا میں ایک قانون یا معاشرہ دیتا ہے؟ ان چیزوں کے علاوہ ایک چیز ہوتا ہے، جسے معاشرے کے قانون اور طریقہ کار کہتے ہیں، میں معاشرے کے طریقہ کار اور قانون کی بات کررہاہوں۔ ہرگز میرا مقصد یہ نہیں کہ جن طریقہ کار کو بزورطاقت مسلط کیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر بلوچ معاشرے میں خواتین کو لباس مکمل پہننا چاہیئے، لباس مکمل پہننے کا مقصدہرگزیہ نہیں ہے آپ تمام جسم کو چھپا کر صرف دو آنکھیں باہر کریں۔ بلوچ معاشرہ اس چیزکی اجازت نہ دیتا تھا نہ ہی بلوچ معاشرے میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔

اب آتے ہیں، درجہ بالا وہ دو سلوگن پہ جو میں نے تحریر کی ہے، ایک بات ہم ایک بار سوچیں، کیا کسی بھی معاشرے میں سرے عام سیکس کرنے کی اجازت ہے؟ کیا معاشرہ مرد اور خواتین دونوں کو اجازت دیتا ہے؟ اور ایک بات غیر قانونی طریقے سے کس معاشرے میں سیکس جائز ہے؟

ایک اور بات ایک طرف خواتین اسی بات پہ انکاری ہیں کہ مرد، خواتین کو صرف سیکس لیبر سمجھتے ہیں، تو دوسری طرف میری جسم میری مرضی والا سلوگن، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس بات پہ ضرور یہ بات نکلتی ہے کیا خواتین آزادی چاہتے ہیں یا کچھ اور؟

اس وقت جس آزادی کی باتیں خواتین کررہے ہیں، اس پہ اگر سوچا جائے تو اس حوالے سےنہ کہ مرد آزادہے، نہ ہی خواتین اور خواتین پہ ان چیزوں پہ کچھ سختیاں زیادہ ضرور ہیں مگر آزاد اس حوالے سے دونوں نہیں ہیں۔

اگر خواتین واقعی آزادی چاہتے ہیں، سب سے پہلے ان معزز خواتین اور فمینسٹوں سے میں کہنا چاہونگا آپ یہ جاننے کی کوشش کریں خواتین کو کس طرح کی آزادی چاہیئے اور ہم لوگوں کا سلوگن کیا ہونا چاہیئے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔