عظیم ماں لمہ یاسمین – چاکر بلوچ

636

عظیم ماں لمہ یاسمین

تحریر۔ چاکر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر ہم دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائیں، تو ایک ماں کی اپنے اولاد کے لیئے مہر او محبت کا اندازہ شاید درست معنوں میں نہ لگا سکیں، کیوںکہ ہر کوئی ماں نہیں ہے لیکن ہم اسے محسوس ضرور کر سکتے ہیں، ایک ماں اپنے اولاد سے اتنا محبت کرتا ہے کہ اولاد اگر جو بھی فیصلہ کرے، چاہے وہ صحیح ہو یا غلط، وہ اپنے اولا کے فیصلے کو تسلیم کرتا ہے کیونکہ وہ اپنے اولاد سے اس حد تک محبت کرتا ہے کہ اسے وہ فیصلہ آنکھیں بند کرکے ماننا پڑتا ہے، اولا کی پہلی درس گاہ ماں ہوتا ہے، کیونکہ ماں وہ واحد شخصیت ہے، جس سے اولاد بچپن میں قریب تر ہوتے ہیں اور ہمیشہ ایک بچے کے لیئے پہلا رول ماڈل اس کی ماں ہوتی ہے، نو ماہ تک ماں ایک تکلیف کے سفر سے گذر کر اپنے اولاد کو جنم دیتا ہے، پھر راتوں کو جاگنا اور اپنے اولاد کا اس وقت تک خیال رکھنا جب تک بچا بڑا اور سمجھدار ہو پائے۔ یہ سفر ماں کے لیئے ایک کٹھن سفر ثابت ہوتا ہے۔

دنیا کی تاریخ میں لمہ یاسمین کا نام بھی ہمیشہ زندہ رہے گی، آپ اپنے نوجوان فرزند فدائی ریحان کو وطن کے لیئے خوشی خوشی قربان کر دیتے ہیں، آج میں اس عظیم ماں کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے جارہا ہوں اور مجھے اس بات پر فخر محسوس ہورہا ہے کہ میں آج اس عظیم ماں لمہ یاسمین کے شان میں کچھ لکھنے جارہا ہوں۔

لمہ یاسمین کون ہیں؟ کس کی ماں اور کی شریک حیات ہیں؟ لمہ یاسمین بی ایل اے مجید بریگیڈ کے فدائی شہید ریحان جان اور قوم کی بہادر بیٹی گودی عائشہ کی ماں اور ایک عظیم ہستی استاد جنرل اسلم بلوچ کی شریک حیات ہے۔ لمہ یاسمین آج نا صرف ریحان بلوچ یا عائشہ کی ماں بن چکی ہے بلکہ وہ آج بلوچ قوم کی ماں کی حیثیت رکھتی ہے۔ 11 اگست 2018 کے دن دالبندین میں چائنیز کے قافلے پر فدائی حملہ کرنے والے ریحان بلوچ کا تصویر جب نظروں سے گذرا تو میں ایک سوچ میں مبتلا ہوگیا تھا کہ یہ نوجوان کون ہے اور کہاں سے ہوگا، جس کو وطن کی محبت اور درد نے اس حد تک لایا کہ وہ وطن کے لیئے اتنا بڑا قربانی دے سکتا ہے؟ پھر آہستہ آہستہ سوشل میڈیا پے معلوم ہوا کہ فدائی ریحان بی ایل اے کے بانی رہنما استاد اسلم کے فرزند ہیں، سوچا شاید استاد کی تربیت کی وجہ سے ریحان جان ایک مثبت اور پختہ سوچ کہ مالک تھے، پھر ذہن میں فوراً سوال پیدا ہوا کہ یار اگر اس کی ماں کو پتہ چلا کہ اس کے بیٹے نے وطن کے لیئے خود کو خوشی خوشی قربان کر دیا ہے تو اس کے ماں کے اوپر آسمان ٹوٹ پڑا ہوگا کہ وہ اپنے اولاد کا یہ خبر کیسے سن سکے گی۔ کیوںکہ بچپن میں جب بھی ہمیں چھوٹا سا چوٹ لگتا تو ماں ہمارا وہ درد بھی نہیں دیکھ نہیں سکتی۔

جو جو سوالات میرے ذہن میں تھے لمہ یاسمین کی بہادری نے میرے سب خیالات کو غلط ثابت کر دیا، لمہ یاسمین اپنے نوجوان بیٹے کے اوپر بلوچستان کا بیرک (جھنڈا ) ڈال کر یہ کہتا ہے کہ (کنا مار ای نے وطن کے قربان کیوہ) بیٹا میں تمہیں وطن پے قربان کرتی ہوں۔

آج اگر لمہ یاسمین یہ قدم اٹھا سکتی ہے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لمہ یاسمین کی وطن سے محبت اس حد تک ہے کہ وہ خوشی خوشی اپنے پیارے اولاد کو وطن پہ قربان کرنے کے چار مہینے بعد اپنے بہادر اور ایک شخصیت کے مالک شریک حیات استاد اسلم کو بھی وطن پر قربان ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔

حالیہ دنوں میں نے لمہ یاسمین کا ایک انٹرویو دیکھا تو ان کے حوصلے اور ہمت کو دیکھ کر، ان کے باتوں سے یہ اندازہ ہورہا تھا، وہ نہ صرف شہید ریحان یا استاد اسلم بلکہ ہر بلوچ نوجوان جہد کاروں کے لیئے کتنا درد رکھتا ہے جو بلوچ قومی جہد میں اپنا قیمتی وقت، اپنے گھروں کو چھوڑ کر بلوچستان کی آجوئی کے لیئے دن رات ایک کر کے تمام قربانیوں کو سہنے کے لیئے تیار ہیں. یقیناً لمہ یاسمین اور سانحہ توتک میں جام شہادت نوش کرنے والے نوجوان شہید نعیم قلندرانی کی والدہ کی ہمت بلوچ نوجوانوں کے لیے باعث ہمت ہے، لمہ یاسمین اس وقت بلوچ قوم کی ماں کے حثیت سے اپنا کردار ادا کررہی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔