” صحافتی جبر” اور “خاموش صحافت”
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جدید ریاستی نظام کے بدولت سینکڑوں ادارے سماجی خدمت اور انسانی آزادی کو یقینی بنانے کیلئے وجود میں آئے، ان شعبوں میں سے ایک صحافت کا شعبہ ہے، جسکا مقصد عوام کیلئے حق اور سچ کو اسکے حقیقت کے مطابق بیان کرنا تھا۔ اس شعبے سے وابستگی انسانی عظمت میں اضافہ کرتی تھی۔ بھوک و افلاس کا سامنا کرنے کے باوجود، صحافتی قانون و قوائد سے کبھی بھی بد دیانتی نہیں کی جاتی تھی۔ فرائض کی ادائیگی میں ہزاروں صحافی گمنام موت مارے گئے۔
بلوچستان جو غلامی کی طوق پہنے سات دہائیوں سے ریاستی جبر و قبضہ گیریت کا سامنا کر رہی ہے، یہاں پر جیسے زندگی و سماجی ترقی رک سی گئی ہے۔ طاقت و وحشت کے استعمال نے انسانی اقدار کے ساتھ ساتھ اخلاقی و سماجی فرائض و قوانین کو بھی زک پہنچائی ہے۔ ریاست نے منصوبہ بندی کے تحت صحافت جیسے اہم شعبے کو بھی تباہ و برباد کردیا ہے، اب صحافت بجائے عوامی خدمت کے، منافع خور کاروبار کی شکل اختیار کرچکی ہے، جہاں ضمیر فروشوں کی بولی لگتی ہے، فرض بکتا ہے جو نہیں بکتا اسے رزاق گل، ارشادمستوئی، رزاق بلوچ، عبدالحق بلوچ و سینکڑوں دیگر صحافیوں کی طرح قتل کردیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی اداروں پر پابندی لگا کر انکے آنکھوں پر ریاستی چشمہ لگا کر خطے میں ہونے والے بدترین انسانی حقوق کی پامالیوں پر پردہ ڈالنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔
ریاست اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کیلئے جہاں سیاسی و سماجی کارکنوں کے چہرے مسخ کرکے لاشوں کو ویرانوں اور بیابانوں میں پھینک رہی ہے، وہیں پر تحریک کی آواز بننے والے اداروں کے ساتھ ساتھ غیر جانب دار و غیر سیاسی اداروں کو بھی مسخ کرچکی ہے، جن میں میڈیا بھی شامل ہے۔ جیسے سیکورٹی و امن کے نام پر بلوچستان کے بجٹ سے فوج اور فرنٹیئر کور کو پالا جارہا ہے، بالکل اسی طرح بلوچستان میں کام کرنے والے وفاقی اخبارات و ٹی وی چینلز کو بھی نوازا جارہا ہے تاکہ حقائق و سچائی کو مسخ کی جاسکے، ان اقدامات کو ریاست اپنے خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں بخوبی سرانجام دے چکی ہے۔ باقی ماندہ صحافت ان صحافیوں کے ہاتھوں لگ چکی ہے، جو ضمیر سے زیادہ زر کی وجہ سے اس پیشے سے جڑ چکے ہیں، پانچ فیصد ان صحافیوں کی ہے جو کہیں نہ کہیں صحافت کی ڈگری ہونے کے ساتھ کام ایمانداری سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان دنیا میں صحافت کے لئے خطرناک ملک ہے.تحقیقی مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ میڈیا مکمل طور پر ریاست کی طرف سے کنٹرول اور عوام کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ صحافیوں کو جبری گمشدگی، تشدد، قتل، دھمکی جیسی متعدد مشکلات کا سامنا ہے۔ جسکی وجہ سے دن بہ دن آزاد صحافت مشکل ہوتی جارہی ہے۔
پاکستانی غلامانہ طرز تعلیم کو فروغ دینے کیلئے جو چند کالج اور یونیورسٹیاں بنائی گئی ہیں ان سے سینکڑوں گریجویٹ سالانہ میدان عمل میں نکلتے ہیں، مگر انکی صلاحیتیں اس حد تک اجاگر نہیں ہو پاتی کہ وہ سماجی ترقی میں کوئی واضح کردار ادا کرسکیں، قومی شعور کی کمی کی وجہ سے انکو قومی ذمہ داریوں اور ضرورتوں کا احساس نہیں ہو پاتا، بلکہ ریاستی منصوبہ کے تحت یہ گدھوں کی ایک ایسی گروہ بن جاتے ہیں، جو ڈگریوں کے باوجود سماجی و قومی خدمات کو ادا کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔ ریاست سے بلوچ قوم کیلئے خیر کی کوئی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے برابر ہے، قوم کے باشعور فرزند ہی ان صلاحیتوں کو مثبت اور قومی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ذمہ داری اٹھاسکتے ہیں، باشعور نوجوان قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ انکو قبضہ گیریت اور اس سے پیدا ہونے والے صورتحال کا جائزہ لیکر مظبوط و مربوط جدید اداروں کی تشکیل کرنی چاہیئے۔ مشکلات بہر صورت قومی تشکیل اور غلامی کے خلاف جہد کے سامنے ہمیشہ پیدا ہوتی رہتی ہیں لیکن بلند ارادوں اور جذبوں سے ظلم و جبر کو سرنگوں کرنا کسی بھی صورت ممکنات میں نہیں۔
صحافت کی نئی اصطلاح ان ملکوں اور خطوں میں متعارف کرنے کی ضرورت ہے، جن علاقوں میں صحافیوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوتی ہیں۔ بلوچستان کی صورتحال پر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی جانب سے نظراندازی اور صحافیوں پر ریاستی پابندیوں کے باعث سچائی تک پہنچنے کےلیئے ضروری ہے کہ ایسے ادارے متعارف ہوں، جو ریاستی اقدامات اور مظالم و جبر کو فاش کر سکیں۔ ایسے عزائم کا مقابلہ کرنے کیلئے “خاموش صحافت ” کو متعارف کیا جائے، ایسا ادارہ جو بلوچستان کے(تمام شہروں) سمیت سندھ، پنجاب، کراچی، ملتان، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ سمیت تمام شہروں کو نمایندگی دے۔اس طریقہ کار سے ایک شخص ایک قلم ایک کیمرہ کی صحافت کو فروغ دی جاسکتی ہے۔ میڈیا گروپ آزاد اور شفاف صحافت کو گاؤں سے گاوں اور شہر سے شہر تک پہنچانے کا عزم رکھیں۔ تاکہ آزاد و محفوظ صحافت سے دنیا کو حقائق کے قریب لایا جاسکے. خطے کے بارے میں مختصراً لیکن سچائی پر مبنی رپورٹنگ کیلئے باصلاحیت نوجوانوں اور صحافیوں کو ایک حقیقی سفر کا حصہ بننے کے لیئے موقع فراہم کی جائے۔ وہ رضاکار جو “صحافتی جبر” کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں وہ “خاموش صحافت” کے طریقہ کار کو اختیار کرسکتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔